شگوفہ محبت/سرو ناز کا آنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

سرو ناز کا آنا، پیغامِ طلب شاہزادے کو سنانا، بصد تکرار شاہزادہ کو لے کے پرستان میں جانا، صحبت برات کی کیفیت دن رات کی اور ملاقات سلطان پردۂ قاف کی  

سیاحانِ اقلیم معانی کے طے کرنے والے، مرحلۂ خوش بیانی کے افسانہ خواں، فسوں پرداز، حاکیانِ ممتاز بیان کرتے ہیں: تخت ہوا پر جو آیا، سب نے خوف کھایا، عین کُریال میں غلہ لگا۔ جس دم زمین پر اتر آیا، سب کو سرو ناز کا منہ نظر آیا۔ دوسرے وزیر زادی بہت مغرور، سراپا ناز و انداز ہے، نام سرو ناز ہے۔ ہنوز گل رخسار صدمۂ منقارِ بلبل سے بری، ہزار طرح کی شوخی چالاکی طبیعت میں بھری۔ پہلے آداب بجا لائی، نامہ ہاتھ پر رکھ کے قریب آئی۔ پری زاد نے اٹھ کے گلے سے لگایا، مسند کے قریب تر بٹھایا۔ پوچھا بے اطلاع آنا خیر ہے۔ عرض کی شادی کی کیفیت بڑی سیر ہے۔ شاہزادہ ماہ رخ جو حضور کا بھائی ہے، اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم کھائی ہے۔ اگر جلسے کی شریک آپ نہ ہوئیں تو یہ شادی نہ رچے گی۔ سامان برہم ہوگا، شادی میں غم ہوگا، قیامت مچے گی۔ آپ کو سب نے بلایا ہے، میں نے لے آنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ میری سرخروئی حضور کے ہاتھ ہے، لونڈی قدموں کے ساتھ ہے۔ یہ بھی ہمجولیوں سے کہہ آئی ہوں اگر نہ آئیں گی، میں بھی نہ آؤں گی۔ پرستان میں کسی کو صورت نہ دکھاؤں گی۔ مصلحت یہی ہے کہ اپنے بلانے کو لونڈی کے آنے کو بہت غنیمت سمجھو۔ شادی کی صحبت میں اپنے بیگانے جمع ہیں۔ شراکت کرو، کس نیند میں سوتی ہو۔ یہ خبر بھی سرکار کو معلوم ہے کہ آج کل آپ کی بدوضعی کی پرستان میں دھوم ہے۔ شکر کا موقع اب ہے کہ اس پر بخواہش آپ کی طلب ہے۔ پری زاد نے کہا: میں تو جان پر کھیل چکی ہوں، بہت پاپڑ بیل چکی ہوں۔ خدا کی چوری نہیں تو بندوں سے کیا ڈرنا ہے، آخرش ایک دن مرنا ہے۔ ایک جان ہے، بندہ لے یا خدا لے گا۔ حلوا خاتون نہیں ہوں جو کوئی کھا لے گا۔ میں تیرے ہمراہ ہوں، الّا شرط یہ ہے کہ شاہزادہ میرے ساتھ چلے گا۔ اگر اس کو دیکھ کے کوئی جلے گا تو میں نہ خیال بد نہ نیک کروں گی، اپنی اور اس کی جان ایک کروں گی۔ اماں جان کے نالے آسمان پر پہنچیں گے، ہاتھ مل کے رہ جائیں گے۔ خون کی ندیاں پرستان کی سر زمین میں بہہ جائیں گی۔ اس نے عرض کی: بہت خوب! شب کو جو مصلحت ٹھہرے گی، وہ عمل میں آئے گی۔ آپ کی خوشی بہرکیف ہو جائے گی۔ دیر تک ناچ گانا رہا۔ دستر خوان بچھا، جب کھانے سے فرصت پائی، دونوں وزیر زادیاں شہزادی کو جدا لے گئیں۔ یہ بات سمجھائی کہ سر و ناز یہاں سے جا کے جدا محل سرا آپ کے واسطے سجوا کے شہزادہ کا آپ کے ہمراہ آنا جناب بیگم صاحبہ سے کسی قالب میں بیان کر کے ان کی اجازت لے، ورنہ خلاف مرضی ان کی یہ کام کرنا آپ کے دشمنوں کو سب میں بدنام کرنا ہے۔ سوچیے تو شاہزادے کی شادی ہے۔ سارا پرستان مہمان، صحبت بے تکلفانہ ہے۔ جلسے میں شریک اپنا بیگانہ ہے، دبی ہوئی آگ بھڑکانا ہے۔ غرض کہ یہ بھی سمجھ گئی۔

دم سحر سر و ناز رو بپرواز ہوئی، یہاں سفر کی تیاری ہونے لگی۔ جس دم سر و ناز تن تنہا داخل ہوئی، سب کو خلجان ہوا۔ الجھن حاصل ہوئی۔ علی الخصوص اس کی ماں کو سخت ہراس ہوا۔ نہ آنے سے لاکھ طرح کا وسواس ہوا۔ دل سے کہا اب یہ پردہ کُھل جائے گا، دیکھیے فلک کیا رنگ دکھائے گا۔ سر و ناز کو تنہا خلوت کے مکان میں بلایا، اس نے ہو بہو سب قصہ سنایا کہ واقعی ایک شہزادۂ والا نژاد غیرت صد پری زاد وہاں موجود ہے۔ اس کی جاہ و جلال، حسن و جمال کی صفت جب تک نظر سے نہ گذرے بے سود ہے۔ اس صورت کا پری پیکر جوان انسان تو کیا قوم بنی جان میں نظر سے نہیں گذرا۔ شاید وہ یہاں آ گیا تو دیکھیے گا، ناظرین کا جو حال ہوگا، بہتوں کو جینا وبال ہوگا۔ اولاد کی محبت مخصوص بیٹی کی الفت ماں کو بہت ہوتی ہے اور یہی شے عقل کھوتی ہے۔ کہنے لگی: خیر جو ہو سو ہو، باغ میں جو بارہ دری ہے، اس میں لا کے اتارو۔ ہم بھی تو دیکھ لیں، انسان کیا چیز ہوتے ہیں، یہ لوگ بیہودہ ہیں یا باتمیز ہوتے ہیں۔ فوراً بموجب ایمائے ملکہ حسب حکم سر و ناز کار پرداز حاضر ہوئے۔ وہی باغ اور بارہ دری جس میں شہزادی نے پرورش پائی تھی، سنما سے سبک دست کاری گروں نے سالہائے دراز میں بنائی تھی اور گلزار جہاں سے درخت چن کے تحفہ و نادر لگائے تھے، ایک عالم کو اُس کی تیاری پر رشک آئے تھے، فوراً سج سجا کے دُلہن کی صورت بنا کےآمد کی منتظر ہوئی۔

دوسرے روز سر و ناز باسامان و ساز روانہ ہوئی۔ پری زاد کو اور اس بوستان سلطنت کے شمشاد کو اسی باغ سراپا بہار میں اتارا ، گویا معرکہ مارا۔ پری زاد نے شہزادہ کو خلعت شاہانہ اور جواہرات جو نادر زمانہ تھے، ان سے آراستہ کیا۔ قتالِ عالم بنایا، تخت مرصع کار پر بعز و وقار بٹھایا۔ مقربان خاص حاضر ہو کے نذریں دینےلگے، خلعت و انعام لینے لگے۔ بعد مدت وہ ماہ طلعت تشریف لائی تھی۔ ہوا خواہ اوڑ لاگے مصاحبوں کی بن آئی تھی، مگر جو رو برو نذر لایا، اس نے شہزادہ کو بتایا۔ جس نے پھر کر نذر دی، اسی طرف ٹکٹکی لگ گئی۔ جل جلالہ حسن خوب عجب جنس مرغوب ہے۔ دوست کیا دشمن دیوانہ ہوتا ہے۔ دل سے نثار پروانہ وار اپنا بیگانہ ہوتا ہے۔ غرض کہ قوم بنی جان میں شدہ شدہ کل پرستان میں دھوم مچی لیس کمثله۔ یہاں تک کہ پری زاد کے باپ اور بھائی کو اُس کی رعنائی کی خبر پہنچی۔ بسکہ اس کے بھائی کی زیبائی کی اور جرأت و صولت کی شہرت تھی، اسی کی برات تھی اور طاقت میں بھی ثانی رستم تھا۔ دوسرا پرستان میں کم تھا۔ اس کو تو اپنی یکتائی کا خیال تھا۔ باپ سے اجازت خواہ ہوا کہ اگر ارشاد ہو غلام اس کو جا کے دیکھے، امتحان کرے۔ ہمارا رعب و جلال اسے کچھ نہ ہوا، بے تکلف یہاں چلا آیا۔ بادشاہ نے فرمایا: کیا ضرور وہ مجبور ہے، اسے تو وہ بدبخت لائی ہے۔ یہ قضا آئی ہے۔ ایسا نہ ہو کچھ شور و شر ہو، مسافر کشی کی پرستان میں خبر ہو جانے میں نفع کیسا، آبرو کا ضرر ہے۔ یہ فتح شکست سے بدتر ہے۔ اس نے باپ کا کہنا نہ مانا۔ مسلح ہو کے باغ کو روانہ ہوا۔ یہاں یہ خبر پہنچی کہ ماہ رخ تمھارا بھائی باسباب ظاہر ملاقات کرنے آتا ہے مگر گھات کرنے آتا ہے۔ شدت سے بدگمان ہے، مدنظر امتحان ہے۔ شہزادہ نے جواب دیا: اپنی آنکھ دیو سے نہیں جھپکی، وہ تو بنی جان ہے۔ خدا ہمارا ہر دم حافظ و نگہبان ہے۔ ابھی یہ کلمہ ناتمام تھا کہ وہ آ پہنچا۔ شاہزاہ جہاں بیٹھا تھا وہاں سے نہ اٹھا۔ کچھ نہ خیال کیا، نہ استقبال کیا۔ قدرتِ حق دیکھیے، روبرو جو آیا شہزادے کا الٹا رعب چھایا۔ گھبرا کے پہلے تو سلام کیا، پھر ہنس کے یہ کلام کیا: بندہ حضور کا شدت سے مشتاق تھا، زمانہ مہجوری سخت شاق تھا۔ یہ کہہ کے ہاتھ پھیلائے کہ آئیے گلے سے لگ جائیے۔ اب تامل عجب و نخوت سمجھ کے شاہزادہ اٹھا، بغلگیر ہوا، دو باتیں جو کیں دام محبت میں اسیر ہوا۔ بہت تعظیم سے پاس بٹھایا، یہ شعر سنایا سعدی علیہ الرحمہ :

تواضع زگردن فرازاں نکوست

گداگر تواضع کند خوی اوست


ماضی مستقبل کا حال شروع ہوا۔ دلچسپ باتیں کرنے لگا کہ خالق لیل و نہار کی سرکار سے اول خلقت جان ہے، ثانی ظہور انسان ہے، مگر دونوں کو فقط اپنی عبادت کے واسطے بنایا ہے۔ کلام مجید میں آیا ہے کہ ما خلقتُ الجن والانس الا لیعبدون، اگر انصاف ہاتھ سے نہ دو تو تمیز خیر و شر اختیار میں ہے۔ فرق بین نور نار میں ہے۔ ہر چند تم لوگوں نے بڑا مرتبہ پایا ہے، مگر اشرف المخلوقات سوچو تو کس کو فرمایا ہے۔ ہمارے تقرب کی نسبت اور دور ہیں، ہمارے روبرو سب مجبور ہیں۔ چار دانگ عالم میں بزور شمشیر لطافت تقریر سے ہمار ڈنکا بجا ہے، فرشتوں نے سجدہ کس کو کیا ہے۔ گو تمھیں بڑی قدرت دی، مہیا سب طرح کا سامان ہوا، مسکن پرستان ہوا لیکن یہ تو کہو تم میں سے کون سلیمان ہوا۔ نبی ہمارا صغیرہ کبیرہ سے پاک ہے، اس کی شان میں لولاک ہے۔ اس کے سوا کیسے کیسے اولو العزم صاحب تخت و تاج ہوئے، سرکشوں کے کیا کیا علاج ہوئے۔ طہمورث دیوبند کی داستان مشہور ہے۔ اسفند یار کی روئیں تنی کا عالم میں مذکور ہے۔ سام و نریمان، رستم و سُہراب سے پہلوان گذر گئے، فلک پیر کی مسل میں یہ بے مثل جوان گذر گئے۔ بادشاہ تو خیر فقیر کیسے کیسے صاحب کمال ہوئے۔ اُن کے ہاتھ سے تمھارے کیا حال ہوئے۔

ماہ رخ کو سخت انفعال ہوا، پسینہ آ گیا۔شرم سے عجب حال ہوا، سِوا درست اور خوب وہ محجوب کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ آئینۂ رخسار شاہزادہ وقار دیکھ کے سکتہ تھا، جس دم یہ جملے تمام کیے پھر اختلاط کے کلام کیے۔ اس چرب زبانی اور شیریں بیانی سے تقریر دلپذیر کی کہ ماہ رخ کا نُطق بند ہوگیا، بیٹھے بٹھائے کھو گیا۔ دو چار گھڑی یہ صحبت رہی، رخصت ہو کے گھر کی راہ لی۔ باپ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس نے ملاقات کا حال پوچھا، شاہزادہ کا فضل و کمال پوچھا۔ پھر تو وہ بحر مواج کی صورت جوش زن ہوا، سرگرم سخن ہوا۔ کیفیت عزم و شان کی، خوبصورتیِ بیان کی، ذہن کی جودت، چہرے کی صورت کہہ کے عرض کی کہ پہلے تو وہ باتیں کیں جن کو سن کے حجاب ہوا، دل کو پیچ و تاب ہوا لیکن سخن حق میں کلام نہیں۔ بجز خموشی جواب کا مقام نہیں۔ بہ نگاہ اول اس کا رعب چھایا۔ باتیں ایسی سنائیں کہ فرمانبردار بنایا۔ خلاصہ یہ کہ عالی منزلت والا دودمان ہے، سلطان ابن سلطان سحر کا انسان ہے۔ اس کے بیان سے بادشاہ کو دیکھنے کا ذوق پیدا ہوا، دیدہ شیدا ہوا۔ فرمایا: اس کی دعوت کا سامان کرو، مہمان کرو۔ اس حیلہ میں ملاقات ہو، حرف و حکایات ہو اور سچ ہے جناب باری نے بشر کو بڑا مرتبہ دیا ہے، دیو پری کو اس نے مسخر کیا ہے۔ اس کے قرب کا مرتبہ بہت اعلیٰ ہے، گواہ قاب قوسین او ادنیٰ ہے۔

القصہ ماہ رخ نے ملکہ مہر جمال یعنی اپنی بہن کو شریک کر کے بمنت دعوت کا اقرار لیا۔ شاہزادہ خوشامد سے مجبور ہوگیا۔ غرض کہ شاہزادہ کے جانے کی دعوت کھانے کی تمام پرستان میں دھوم ہوئی۔ تاریخ اور روز کی خبر معلوم ہوئی۔ بروز معین دو رویہ راہ میں انبوہ تھا، ہر سمت پری زادوں کا ریلہ تھا۔ دھوم دھڑکے کا میلہ تھا۔ پیک نظر کا گذر محال تھا، کثرت کا یہ حال تھا۔ لوگوں کے کپڑے لتے ہوتے تھے۔ شانے سے شانے اپنے بیگانے کے چھلتے تھے۔ جو ساتھ سے چُھٹ جاتے تھے، ان کا پتا نہ پاتے تھے، ڈھوندھے سے نہ ملتے تھے۔ سر راہ سب کی آنکھ لگی تھی۔ تل بھر کی جگہ نہ تھی۔ پُتلی راستہ تکتی تھی، نظر نہ پھر سکتی تھی۔ یکایک سواری نظر آئی، بڑی تیاری نظر آئی۔ آنکھوں میں چلا آتا تھا، مفصل کسی سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ جس دم شہزادہ جلوہ گر ہوا، آنکھوں میں گذر ہوا۔ جب آگے بڑھا، نظروں سے نہاں ہوا، تاریک جہاں ہوا۔ گل رُخوں کے مُنہ پر زردی چھائی، نظروں میں سرسوں پھولی، خلقت اپنے اپنے گھر کا رستہ بھولی۔ دیوان عام تک ماہ رخ پیادہ پا آیا۔ وزیر امیروں نے بڑھ کے استقبال کیا۔ نثار بصد انکسار زر و مال کیا۔ ہاتھوں ہاتھ سریر آرائے قاف کے روبرو لائے۔ شہزادہ لحاظِ سن سے دابِ سلطنت بجا لایا،ضابطہ کے موافق سر جھکایا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کے چھاتی سے لگا کے دیر تک پیار کیا۔ بہت سا زر و جواہر اُس لعل بے بہا پر نثار کیا۔ برابر بٹھا کے مسکن و ماوا، نام جد و آبا پوچھا۔ شاہزادۂ والا گہر نے دُرجِ دہن کو وا، زبانِ سحر بیان کو گویا کیا، اس لب و لہجہ سے لب کھولے، حسب و نسب شان شوکت کا بیان کیا کہ اہل محفل نے دامن دامن موتی رولے۔ جودت طبع کا امتحان کیا۔ چار طرف سے تحسین و آفرین کی صدا بلند ہوئی، خاص و عام کو تقریر بے نظیر پسند ہوئی۔ جتنے شاہ و شہریار، امرائے نامدار، زبردستانِ روزگار پردۂ قاف کی شادی کی تقریب میں آئے تھے اس کا حسن و جمال، تقریر مسلسل کا حال دیکھ کے سب کے سب بزانوئے شرم سر خم تھے۔ محفل مرقع تھی، سب کو سکتے کے عالم تھے اور کہتے تھے: حق ہے کہ انسان کو جمیع مخلوق پر عز و شرف ہے۔ ان کمالوں پر یہ انکسار انھیں لوگوں کا ظرف ہے۔ اگر ہماری جنس میں یہ بات ہوتی خدا کی عنایات ہوتی، زمین پر پاؤں نہ رکھتے، بستیاں بسنے نہ پاتیں، بلکہ آباد قریہ گاؤں نہ رکھتے۔ اور ماہ رخ کا باپ سلطان پرستان تو آپ میں نہ تھا۔ شمع جمال شاہزادہ کا شیدا تھا، دیوانہ تھا، محفل میں پروانہ تھا۔ بہت تکلف کی دعوت ہوئی۔ ناچ گانے کی، اپنے بیگانے کی دیر تک صحبت رہی۔ اس کی محبت کا قصہ تو وہاں مشہور ہو چکا تھا، مطلع اناث و ذکور ہو چکا تھا۔ اب زن و مرد فرد فرد نے بچشم دیکھا۔ آمد و رفت دربار میں ہونے لگی، گرم صحبتی حُضّار میں ہونے لگی۔

الغرض جب ماہ رخ کی برات ہو چکی، جو جو شاہ و شہریار، رئیسان نامدار اپنے اپنے شہر دیار سے آئے تھے، رخصت ہو گئے۔ تمام پرستان میں قوم بنی جان میں شہزادہ کی شکل و شمائل کا چرچا جا بجا مچا رہتا تھا۔ جس نے نہ دیکھا تھا، وہ مشتاق سدا رہتا تھا۔ شدہ شدہ یہ خبر زمرد کوہ پر پہنچی۔ وہاں کا شہزادہ ملکۂ مہر جمال سے منسوب تھا، ماہ رخ کی شادی کے بعد اس کا اسلوب تھا۔ جس دم یہ ماجرا جانگداز اس نے سنا، طیش کھایا، سر دُھنا۔ اسی دم باپ سے نامہ لکھوا کے قاصد صبا رفتار کو دے کے تاکید کی کہ برق و باد سے تند و تیز گرم خیز ہو۔ منتظر سمجھ کے جلد جواب لایا تو انعام ہے، دیر قضا کا پیغام ہے۔ برید سریع السیر مع الخیر مثل صبا اڑ کے پہنچا۔ وزیر اعظم کی وساطت سے ملازمت حاصل کی۔ نامۂ سر بستہ مکتوب الیہ کے حضور حسب دستور گذرانا۔ دبیر عطارد تحریر طلب ہوا۔ خط کھولا، مطالعہ کر کے چُپ ہوگیا۔ خوف سے کچھ نہ بولا۔ بادشاہ نے فرمایا: برخاست! ہر شخص آداب بجا لا کے روانہ ہوا۔ دربار میں کوئی نہ رہا، بجز وزیر تنہائی کا زمانہ ہوا، وہ ایلچی بھی رخصت ہوا۔ اب منشی نے پڑھنا شروع کیا۔