شگوفہ محبت/سبب تالیف اس قصے لاثانی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

سبب تالیف اس قصے لاثانی کی، لکھنے کی وجہ اس کہانی کی


متوقع عنایت، امیدوار رحمت رب غفور مرزا رجب علی تخلص سرورؔ ناظرین پر تمکین سامعانِ باریک بین کی خدمت میں عرض پیرا ہے کہ نامساعدت بخت اور نیرنگیِ زمانہ سے نہ عربی میں دخل ہوا نہ فارسی میں کامل ہوا، دونوں سے ناآشنا رہا، ایک کا بھی علم نہ حاصل ہوا۔ پست ہمتی سے اردو کے لکھنے میں اوقات بسر کی، تردد کی شام سحر کی۔ کچھ دن نظم کا انتظام رہا، شعر کہنے کا خیال خام رہا۔ جب وہ بھی نہ ہو سکا، نثر کی طرف خیال آیا۔ اس کو اُس سے زیادہ مشکل پایا۔ چنانچہ فسانۂ عجائب کہ قصۂ جان عالم ہے بہت مطبوع ساکنان عالم ہے بموجب مثل ؏

قبولِ خاطر و لطفِ سخن خدا داد ست


اور تحریر ثانی حسب ارشاد ہدایت بنیاد حضرت ظل سبحانی سرور سلطانی ہے۔ یہ بھی ہر شخص کو پسند ہے، جو سنجیدہ فہمیدہ ہے اس کا خواہشمند ہے اور چند حکایات مختصر و طویل سامع قاری ان سے بھی ملول نہیں۔ جب ان تحریروں سے فرصت پا چکا تو قضیہ اتفاقیہ درپیش ہوا۔ ایک شفیق کہ مجمع صفات ان کی ذات ہے، جوان حسین رعنا، جرات میں یکتا، غیور ذی شعور، جوہر شناش قاعدہ دان ہیں، قوم کے رئیس ہیں، نام نامی امجد علی خان ہے، ان کے حسب و نسب سے آگاہ جہان ہے۔ شگفتہ خاطر دل شاد، ساکن سنڈیلہ ملیح آباد۔ جتنا کام اس ملک میں مشکل ہے وہ مالی ہے۔ خدا کی عنایت سے اس میں طبیعت کو رسائی ہے ، نہایت ذہن عالی ہے۔ ہمیشہ عمالان سرکار ابد قرار میں وثوق و اعتبار رہا ہے ، نظامت کے انتظام پر بلا جبر اختیار رہا ہے۔ راقم کے حال پر بہت نظر عنایت ہے، منظور سب طرح کی رعایت ہے۔ ایک قصہ مہر چند کھتری کا لکھا جو ان کی نظر سے گذرا، اکثر مضمون اس کا پسندِ خاطر ہوا۔ لیکن وہ بیان اور زبان گذشتہ یعنی تقویم پارینہ ہے۔ اب جو ہندی کی چندی ہوئی ہے اس سے سراسر خالی تھا، روزمرہ محاورہ لاوبالی تھا۔ فقیر نے باعث رغبت خان والا شان اُس داستان کی جان جو کہ مطبوع طبع اُس نکتہ دان کی تھی نکال لی، خوگیر کی بھرتی اُچھال دی۔ غالب کہ منظور نظر اہل بصر ہو اور اس کا مطالعہ مدنظر ہو۔ حظ اٹھائیں یا کچھ لطف پائیں تو گنہگار کو دعائے خیر سے بھول نہ جائیں، یاد فرمائیں۔ اگرچہ پڑھنے لکھنے والے کم نہ ہوں گے، تاسف اتنا ہے کہ ہم نہ ہوں گے۔ قصہ اگر پسند آئے گا تو مشہور ہوگا، ہمارا ذکر ضرور ہوگا۔ اس وقت سہو اور غلطی معاف کر کے، طبیعت کدورت سے صاف کر کے بنظر انصاف جو صاحب اوصاف کلام سرور سے مسرور ہو تو اتنا کلمہ فرمائیے کہ عاصی غلامان حسینؑ کے ہمراہ محشور ہو۔ نہ فردوسی رہا نہ خاقانی، نہ عرفی نہ سعدی ہے۔ شہرۂ آفاق اس سرا کی سراسر بے بنیادی ہے۔ ہزاروں جنگل ایک دم میں آباد ہو گئے، لاکھوں بسے بسائے شہر اس عالم میں برباد ہو گئے۔ شادی کیسی، بڑا غم تو یہ ہے کہ دوام غم نہیں رہتا، ایک وضع پر طرز عالم نہیں رہتا۔ عجیب و غریب یہاں کا لیکھا ہے، ایک کا جنازہ چار کے کندھے پر دیکھا ہے۔ ہر چند اس کی بھی کس کو امید ہے مگر جس کا نام یہاں بہ نیکی رہ گیا ہے وہ ہی زندۂ جاوید ہے۔ دنیا میں سخت جانی سے کڑی نرم سب سہہ جاتا ہے، عالم اسباب کا اسباب سب چھوٹتا ہے۔ غیر مزے لوٹتا ہے لیکن نام نیک ہو یا بد وہ رہ جاتا ہے۔ نہ کچھ ساتھ لاتا ہے نہ لے جاتا ہے۔ جیسا عمل سرزد ہوتا ہے اس کی جزا پاتا ہے؂

قلم بشکن سیاہی ریز کاغذ سوز دم درکش

حسن ایں قصۂ عشق ست در دفتر نمی گنجد


خدا کی عنایت سے آغاز اس کا خوب ہوا، بخیر انجام ہے۔ “شگوفۂ محبت” اس کا نام ہے۔ امیدوار پروردگار سے ہے کہ جب یہ داستان تمام ہو، مقبول خاص و عام ہو۔