شگوفہ محبت/دوسری بار پھر بلا میں مبتلا ہونا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دوسری بار پھر بلا میں مبتلا ہونا اس شیر بیشۂ محبت کا یعنی اس چکارہ نے ہرن بنایا اور باغ سے مثل بہار باہر نکال کے لاکھ طرح کی ایذا میں پھنسایا


فسانہ پردازانِ آہوگیر اس اجل گرفتہ نخچیر کا حال اس طور پر تحریر کرتے ہیں کہ وہ ہزبر کنام وفا چوکڑی بھول کے آفت رسیدہ از خود رمیدہ اس دشت پُر خطر میں سیدھا چل نکلا، تکلے کی طرح بل نکلا۔ حیران و پریشان، درندوں کی گزند سے چھپتا پھرتا تھا۔ بدحواسی کے باعث ہر قدم الجھ کے گرتا تھا۔ دل میں نصیب برگشتہ کی شکایت تھی، بے مہریِ پری زاد کی حکایت تھی کہ ناگاہ ایک گرک کہن سال ہزبر خصال اس کو دور سے نظر آیا۔ خوف کے باعث، ہاتھ پاؤں کانپنے لگے، بدن تھرایا۔ اس نے جو دام میں شکار موٹا تازہ تیار دیکھا، نعمت غیر مترقب سمجھ کے دوڑا۔ شاہزادہ کا خوف سے یہ حال تھا کہ پاؤں زمین نے پکڑ لیے تھے، قدم اٹھانا محال تھا۔ سمجھا پیمانۂ عمر لبریز ہے، یہ دشت صحرائے رستخیز ہے۔ بحسرت آسمان کی طرف سر اٹھا کے رونے لگا، دہشت میں جان کھونے لگا۔ اللہ کی قدرت دیکھیے، بے قضا کوئی مرتا نہیں، توپ کا گولہ اثر کرتا نہیں؂

اگر تیغ عالم بجنبد زجای

نبرّد رگی تا نخواہد خدای


جس دم بھیڑیا اس کے نزدیک پہنچا، دفعۃً کوئی شاہزادۂ عالی تبار بشوق شکار گھوڑا ہوا کی طرح اڑائے باگ اٹھائے چلا آتا تھا۔ یہ ماجرا اسے جو نظر آیا، بندوق دو نالی غضب کی بھری، بھیڑیے پر خالی کی۔ ماتھے پر گولی پڑی، دُم توڑ کے نکل گئی۔ بھیڑیا تو فی النار ہوا، ہرن سے دو چار ہوا۔ اس نے جو اس بلا سے رہائی پائی، گھوڑے کے گرد پھر کے رکاب پر سر دھرنے لگا۔ منت کے اشارے کرنے لگا۔ شاہزادہ ششدر و حیران اس کی حرکتیں دیکھ رہا تھا کہ ملازمان ہمراہی ڈھونڈھتے ہوئے آ پہنچے۔ انھوں نے چاہا کہ ہرن کو پابند حلقۂ رسن کریں، شاہزادہ نے منع کیا۔ وہ گرفتار دام احسان گھوڑے کے پاس کھڑا ہوگیا۔ سب کو اچنبھا ہوا کہ ایسا وحشی جانور کیونکر رام ہوا، عجب کا مقام ہوا۔ جس دم شاہزادہ نے گھوڑا وہاں سے بڑھایا، پیچھے پیچھے ہرن بھی چلا آیا۔ دن زیادہ آ چکا تھا، شکار کا لطف اٹھا چکا تھا۔ درِ دولت کی طرف باگ موڑی، اس جانور نے رفاقت نہ چھوڑی۔ القصہ محل سرا میں داخل ہوا۔ ہرن بے دغدغہ ساتھ رہا۔ شاہزادی یہ نیا سانحہ دیکھ کے بہت خوش ہوئی۔ گود میں بٹھا کے دیر تک پیار کیا۔ اسی دم جواہر نگار پٹہ اس کے گلے میں ڈالا اور سامان تیار کیا۔ جس نے یہ داستان ندرت بیان سُنی، حیرت ہوئی۔ تمام شہر میں شہرت ہوئی۔ اس مصیبت زدہ کی راحت کا بہت کچھ سامان ہوا۔ شوہر سے زیادہ بی بی کو میلان ہوا۔ جب تک ہرن ہمراہ نہ ہوتا، کہیں قدم نہ دھرتی تھی۔ ایک ساعت جدا نہ کرتی تھی۔ کبھی وہ جو فرصت پاتا، خانۂ باغ میں جاتا۔ کسی درخت کے سایہ تلے گاہ سوتا، جو تنہا ہوتا تو روتا۔ ایک روز شاہزادی نے ہرن کی بے قراری گریہ و زاری دیکھ لی۔ پھر تو اس کو کچھ اور ہی خیال آئے۔ وسوسے خفقان کے معین ہوئے، رنگ لائے۔ وزیر زادی کو بلایا، ہرن دکھا کے حال سنایا، فرمایا: غور کر یہ کیا اسرار ہے۔ ذہن لڑتا نہیں، عقل رسا بیکار ہے۔ جانور کو یوں جان کھوتے نہیں دیکھا، کیسا ہی اس پر ستم ہو روتے نہیں دیکھا۔ وزیر زادی آفتِ روزگار بلائے بے درمان ہمہ دان تھی، بہ نگاہ اول تاڑ گئی کہ یہ انسان ہے مگر اس سحر میں پھنسا ہے کہ عقل حیران ہے۔ یہ بھی سامری کی پوتی تھی، شہیال کی نواسی تھی لیکن اس مقدمے میں یہ دقت ہوتی تھی کہ صورت پر بدحواسی تھی۔ القصہ دیر میں جی کو ٹھہرا کے بولی کہ یہ بشر ہے لیکن سحرمیں گرفتار ہے، بڑے زبردست جادوگر کا گناہگار ہے۔ شہزادی نے فرمایا کہ ہم تجھے اس دم کامل جانیں، تیرا علم مانیں کہ اس کو بہیئت اصل بنا دے، اپنے سحر کی طاقت دکھا دے۔ اس نے عرض کی: حضور بھی اس وادی میں قدم مارتی ہیں، بارہا استادی کا دم مارتی ہیں۔ اس میں امتحان ہوتا ہے، دیکھیں تو کس کے ذریعہ سے انسان ہوتا ہے۔ یہ کہہ کے دونوں سحر کرنے لگیں، سامری جمشید کے دم بھرنے لگیں۔ جس جس چیز کا تجربہ تھا، جس پر بڑا اعتماد تھا، جو کچھ دونوں کو یاد تھا، سب کیا، سرِ مو فرق نہ ہوا۔ شاہزادی تو تھک کے بیٹھ رہی، وزیر زادی نے لوٹ کے پرِ پرواز نکالے۔ ایک سمت کو راہی ہوئی۔ وہ جو گنبد ہفتا دور سامری نے عمر بھر میں بنا کے سجدہ گاہِ ساحرانِ جہاں دارالامان اس کا نام رکھا تھا، سحر پر آغاز و انجام رکھا تھا۔ ادھر کی راہ لی۔ عجیب غریب سخت مہیب جا تھی۔ منزلوں تک زمین سحر میں مبتلا تھی۔ چار دریا گرد بہتے تھے۔ جہاں کے ساحر اسی ٹیکری پر رہتے تھے۔ پہلے دریا کا رنگ طلائی تھا، جسر قدرت اس پر آگ کا تھا، سحر کی لاگ کا تھا۔ چالیس دن کی راہ بہت جانکاہ تھی۔ چار چار منزل تک شعلۂ جوالہ آگ کا پرکالہ اڑ کے جاتا تھا، عفریت دیکھ کے خوف کھاتا تھا۔ کنارے پر برج مطلا تخت جواہر نگار بچھا سامری کی تصویر بصد توقیر اس پر جلوہ گر تھی۔ چالیس ہزار ساحر بے ایمان شب و روز اس کا نگہبان تھا، جس نے تصویر کو سجدہ کیا وہ تو پار اتر گیا اور جو تامل ہوا تو وہ خانماں خراب کباب ہوگیا۔ آگے صحرائے ہولناک تھا۔ درندوں کے سوا کوئی جانور وہاں جا نہ سکتا تھا، پرندہ اُڑ کے آ نہ سکتا تھا۔

دوسرا دریائے مروارید تھا، بیضۂ بط سے بڑا، بے حصر و حساب دُرِّ نایاب بہہ رہا تھا اور یاقوت نگار پُل بالکل تھا اس کے کنارے۔ پیارے پیارے الماس کے شہ نشین بفر و تمکین بنے تھے۔ ویسی ہی تصویریں نظر آتی تھیں، برق سے فزوں چمک جاتی تھیں۔ اس کا گذر بیس دن سے بیشتر نہ تھا۔ صحرا بھی گلزار دشت پُر بہار، میوہ دار اشجار، برگ و بارِ گل سے گل پھولے پھلے، نہ خزاں کا خوف نہ باغبان کا دست رس تھا، نہ گذرِ کس و ناکس تھا۔ گلہائے خود رو بصد رنگ و بو ہر سو مہک رہے تھے۔ جانور مست ہو ہو بہک رہے تھے۔

تیسرا دریائے قہر و آفت لہر تیرہ و تار برنگ دل کفار، جس دم تلاطم ہوتا کوسوں سیاہی پھیل جاتی تھی۔ کسی کی شکل نظر نہ آتی تھی۔ اس پر جسرِ غضب پر تعب تھا۔ کروڑوں اژدرِ خونخوار مہیب طویل قامت مار باہم پیچاں، مُنہ سب کے اوپر وا شعلۂ سوزاں نکلتا۔ اسی صورت کا کنارے پر منارہ، اس میں سامری کی ہیئت دھری گرد آگ بھری۔ بارہ منزل کا طول، مہتمم ساحر نامعقول۔ روبرو دشت دل آزار جہاں کے گل بدتر از خار۔ جو اس میں سب سے چھوٹا کانٹا تھا وہ خنجر سے تیز تر چھانٹا تھا۔

چوتھا دریائے آب تھا۔ اس کا نقشہ اوروں سے زیادہ خراب تھا۔ جس دم اس کے کنارے پر قدم رکھا، شور غل پیدا ہوا، پانی آسمان سے مل گیا۔ یہاں جسر تھا نہ پل تھا، گذاری میں شور و غل تھا۔ جوجو سامری جے پال کے وارث تھے، وہ اس کے حارث تھے۔ اس کے جنگل کا عجیب حال تھا، قدم اٹھانا محال تھا۔ جب پاؤں بڑھا کے آگے رکھا، وہ دو قدم پیچھے ہٹ کے پڑا۔ مہینوں راہ چلے جہاں کھڑا ہو وہیں گڑا ہو۔ ان سب کے بعد وہ گنبد ہفتا دور سامری کا گھر تھا، رفیع الشان ہمسر آسمان۔ بروئے ہوا معلق بنا، ستر در، ہر در کے اوپر برج مکلل بدر و جواہر مختلف رنگ یاقوت اور زمرد کی سلین بجائے خشت و سنگ، برجوں میں ساحر غدار ہیئتیں نرالی شکلیں کالی کالی، کسی کا شیر کا منہ، جسم انسان کا، کسی کے دس بارہ سر دھڑ حیوان کا، کوئی فیل دندان، کسی کا پتلا کر گدنکا، کوئی دیو پیکر، کوئی فولاد بدن کا، کوئی اژدر دہاں شرر افشاں۔ لاکھ ساحر ایک ایک کے تحت فرمان، زمین پر سر بسجود اپنا معبود جانتا، ستر لاکھ کا جمگٹھا۔ برج کے بیچ میں صندوق بے سہارے، اس میں سامری کی نعش، سب کا نام لے کے پکارے۔ دن کو بارہ سورج گنبد کے گرد پھرتے، سرِ شام صندوق کے روبرو سجدے کو گرتے اور رات کو چودہ چاند چار سمت گھومتے۔ دم سحر گرد پھر کر صندوق کو چومتے، ہزارہا ستارہ صندوق سے رات بھر چھوٹتا۔ صبح تک تار نہ ٹوٹتا اور جو کچھ سوال کرو، عرض حال کرو، صندوق سے جواب ملے۔ کھانےکو کباب، پینے کو شراب ملے۔ ہزارہا جادوگرنیوں کے غول، ساحروں سے جدا۔ کیسی کیسی کھپّاٹ پرانی لکّا تا بشر کا گذر ایسے مکان پر خاک ہو جہاں کی زمین ہولناک ہمسر افلاک ہو۔

القصہ وزیرزادی بے ایمان پران وہاں پہنچی، صندوق کے سامنے سجدہ کیا۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ زن و مرد سے سامری کی جے کا غلغلہ مچا، گوشِ فلک کرّ ہوا، چار جانب سے جب ہرہر ہوا، پھر اس نے اپنا مطلب بعجز و نیاز بلند آواز سے کہا۔ دفعۃً ہزارہا گھنٹے جو لٹک رہے تھے، ہوا پر اٹک رہے تھے، بے مدد چوب و دست بجنے لگے۔ کوس و کور گرجنے لگے۔ دو گھڑی کے بعد وہ چپ ہوئے۔ صندوق سے صدا نکلی کہ وہ جو آہوئے حرم درِ بیت الصنم پر مقیم ہے، اس کے پاس جا۔ مطلب سے تیری وہ ماہر ہے۔ سب حقیقت ہماری عنایت سے اس پر ظاہر ہے۔ اگر زبان اس کی ہل جائے گی، تیری تمنا پوری ہوگی، مراد مل جائے گی۔ یہ بتخانے کے در پر حاضر ہوئی۔ دیکھا جواہر نگار کرسی پر ایک ساحر بیٹھا ہے، ہزارہا خادم سر بسجود روبرو موجود ہیں، جسم انسانی چہرہ ہرن کا ہے، سینگ ہر ایک سیکڑوں من کا ہے اور کئی ہزار بے دین اسی شکل و آئین کا چپ و راست کھڑا ہے۔ سینگ سب کے سر پر بڑا بڑا ہے۔ اس نے جھک کے سلام کیا۔ رعب کے باعث اور نہ کلام کیا۔ وہ بولا: نہال قدرت کے تلے اکیس دن گن گن پوجا کر، مطلب حصول ہوگا، عنایت کوئی شاخ یا پھول ہوگا۔ وزیرزادی نے زیر درخت جا، چوکا دے کے سیندور کا ٹیکا لگایا۔ پوجے کو سر جھکایا۔ یا جس دم مدت تمام ہوئی، تڑاکے کی آواز سرِ شام ہوئی۔ باجوں کی صدا آنے لگی۔ پتے پتے درخت کے “یا سامری” کا شور و غل مچانے لگے۔ پھر ایک ٹہنی ڈالی سے ٹوٹ کے درخت سے چھوٹ کے اس کی گود میں گری۔ سات بار اس کے گرد پھری، پھر اس کو لے کے صندوق کے روبرو آئی۔ سجدہ جو کیا، وہی ہنگامہ بپا ہوا اور آواز نکلی: ہمارا لطف تیرا مددگار ہوا، تجھ کو کس قدر افتخار ہوا۔ شجر قدرت کی شاخ عنایت ہوئی، بڑی حمایت ہوئی۔ گو یہ بے برگ و ثمر ہے، مگر ہزار طرح کا اس میں اثر ہے۔ جو بات تیری زبان پر آئے گی، یہ بجا لائے گی۔ یہ رخصت لے کے چلی۔ اس سوکھی ٹہنی کے ملنے سے پھولی نہ سماتی تھی۔ برق و باد سے تیز خیز کر کے گھر کی طرف اڑتی آتی تھی۔ وہ سالہائے دراز کی راہ چند شام و پگاہ میں طے کر کے گھر پہنچی۔ اسی دم شاہزادی کو داخلہ کی خبر پہنچی۔ فوراً سامنے بُلایا، مشتاقانہ گلے لگایا۔ وہاں کا حال جانے کا مآل پوچھا۔ اس نے عرض کی جو شے آج تک بڑے بڑے مقربوں نے نہیں پائی ہے، سامری کی سرکار سے تابعدار لائی ہے۔ دوسرے دن اسی گلستان میں اس کا امتحان ہوا۔ لکڑی کا لگانا بہانہ ہوا، فوراً شاہزادہ انسان ہوا۔ لیکن پناہ بخدا برقِ جمال شاہزادہ خوش خصال یکایک جو چمک گئی، دونوں کی آنکھ جھپک گئی۔ ہوش حواس باختہ یک گز دو فاختہ کا طور ہوا۔ نقشہ ہی کچھ اور ہوا۔ شہزادی دل میں سوچنے لگی اس کو کہاں چھپائیے۔ وزیر زادی نے چاہا اپنے گھر لے جائیے۔ ایک بے قرار دوسری لوٹ پوٹ تھی۔ دونوں کے دل پر چوٹ تھی۔ مصلحت وقت یہ ہوئی کہ وزیر زادی ہی اس کو چندے پوشیدہ رکھے۔ اگر شاہزادہ برسرِ تلاش ہوگا تو یہ راز فاش ہوگا۔

غرض کہ یہ گرفتار مصیبت وزیر زادی کے گھر میں صبح و شام آرام سے رہنے لگا۔ شاہزادی نے اپنے شوہر سے اسی دن کہا، آج سانحہ عجائب ہوگیا۔ وہ ہرن سامنے بیٹھا تھا، دفعۃً غائب ہوگیا۔ رنڈی کے مکر سے خدا کی پناہ، اس کا کلام گواہ ہے ان کیدکُن عظیم۔ وہ شاہزادہ مرد سادہ تھا، کہنے لگا: ہرن کی صورت میں فریب ہوتا ہے، بیشتر اس میں آسیب ہوتا ہے۔ اس کو دم میں ٹال دیا، تجسس کا خدشہ نکال دیا۔ مگر پوشیدہ ملاقاتیں محبت کی باتیں ہونے لگیں۔ لیکن شہزادہ کو باوجود رہائی فرقت کا سخت ملال تھا۔ ہر دم پری زاد کا خیال تھا، رخصت کا سوال تھا۔ وزیر زادی بھی فریفتہ تھی، مرتی تھی، وہ اپنا ہی احسان ہر آن ثابت کرتی تھی۔ یہ بیچارہ گرفتار دام وہاں دو ملّا میں مرغی حرام، ایک کو فکر تھی شراب پلائیے مزے میں لائیے، دوسری چاہتی تھی کچا نگل جائیے۔ شہزادی وزیر زادی کے لگاؤ سے ہر وقت نکھرے رہنے سے ہر دم کے بناؤ سے بگڑ گئی۔ باہم جلی کٹی ہونے لگی۔ صحبت کا ڈھنگ بگڑا، نزاع واقع ہوئی۔ طبیعتوں کا رنگ بگڑا، ایک روز باہم لڑائی سحرآزمانی ہوئی۔ وزیر زادی کی فتح شہزادی کی صفائی ہوئی۔ جب وہ مر چکی، یہ میدان صاف کر چکی۔ روز عالم تنہائی بادہ پیمائی ہونے لگی۔ شہزادہ نے یہ جنگ و جدال قتل و قمع کا حال بغور دیکھا تھا، وزیر زادی کا ظلم و جور دیکھا تھا، خوف جان سے اس بے ایمان سے دب گیا، جو جو اس نے چاہا وہ کام اس نے کیا۔ ایک دن برسبیل مذکور اپنی رہائی کی حکایت پوچھی، وزیر زادی نے چاہا کہ اپنا احسان صاف بیان کیجیے، گھٹا بڑھا وہ قصہ آمد و رفت کا مشروحاً کہہ دیا۔ شہزادے نے کہا: وہ شاخ جس کے یہ شاخسانے ہیں گو فائدہ کیا ہے لیکن دیکھنے کی تمنا ہے۔ جس دم طبیعت کا لگاؤ ہوتا ہے اور جی آ جاتا ہے تو معشوق سے کوئی چیز نہیں چھپاتا ہے ؂

اے دوست اگر جان طلبی جان بتو بخشم

از جان چہ عزیز ست بگو آن بتو بخشم


یہ روبرو لا کے وہ ٹہنی دکھائی۔ شہزادے نے کہا: کچھ نہ ایسی صورت ہے نہ جمال ہے، یقین نہیں ہوتا کہ اس میں ایسا کمال ہے۔ جب دل کسی پر آتا ہے تو عقل کا شعور اڑ جاتا ہے۔ وزیر زادی انجام کار نہ سوچی، برسرِ امتحان اسی آن ہو گئی، کسی پھل کو جانور کسی درخت کو پتھر بنا دیا۔ شہزادے نے دل میں کہا کہ یہ قحبہ تو بدتمیز ہے لیکن یہ شاخ نایاب چیز ہے۔ ٹہنی ہاتھ میں لے کے بنظر غور دیکھنے لگا اور سوچا کہ جب تک یہ بے ایمان ظاہر کی دوست دشمن جان زندہ ہے رہائی معلوم، اپنے دلبر تک رسائی معلوم۔ یہ ظالم شہزادی کو قتل کر چکی، بے گناہ کے خون سے ہاتھ بھر چکی۔ تمھاری محبت سے منہ نہ موڑے گی، جیتے جی ساتھ نہ چھوڑے گی۔ دو امروں سے ایک کام کرو یا اس کو ذبح کرو یا اپنی جان دو، قتل الموذی قبل الایذا کیا نہیں سُنا۔ اگر ناکامی میں مر گئے لطف کیا۔ غریب الوطن ہوئے، بے گور و کفن ہوئے۔ موقع خوب ہے، دیر نہ کرو۔ بسم اللہ یہ سوچ کے وہ شاخ وزیر زادی کے بدن سے لگا بآواز بلند کہا: فوراً باغ سے باہر نکل جا اور جل جا۔ جل جلالہ کہتے ہی ایک شعلہ تھا کہ چمن سے نکل گیا، راکھ کا تودہ رہ گیا۔ روح کی بکھیڑا بدن سے نکل گیا۔ 

یہ ماجرا دیکھ کے بہت مسرور ہوا، قید بند کا خدشہ دور ہوا۔ عمدہ جواہر جسم پر سجا، پھر ٹہنی پر عندلیب وار بیٹھ کر کہا: مجھ کو پری زاد کے باغ تک پہنچا۔ بچشم زدن سن سن کے صدا سنی اور باخاطر شگفتہ درِ باغ نظر آیا۔ مثل فصل بہار بے تکلف اندر آیا۔ شاخ کو پوشیدہ کر کے دلبر کو ڈھونڈھا۔ حوض پر مصروف تماشا پایا۔ دور سے آواز دی۔ اس نے پھر کے جو دیکھا، خود بخود محجوب ہو کے گھبرائی، پھر یہ سوچی وہ کون سا کامل اس کے رنج میں شامل ہوا جو اس کو پھر انسان بنایا، ہمارا کھیل بگاڑا، ایسا سامان بنایا۔ پہلے تو جھچک کے لجالو کی طرح سمٹ گئی، پھر کچھ بن نہ آیا، مجبور لپٹ گئی۔ ہاتھ پکڑ کر بنگلے میں لے گئی۔ مسند پر بٹھایا، جو محرم راز تھیں دمساز تھیں، ان کو طلب کیا۔ جلسے کا سامان منگایا، حسب حکم اسی دم گائنیں خوش گلو مع شراب پرتگالی اور جام و سبو موجود ہوئیں۔ طبلے پر تھاپ دی، ساقی نے پیالی لبریز کی، قتل کو چُھری تیز کی۔ دو چار گیلاس میں نشہ جم گیا۔ جوش بادۂ گلرنگ جوانی کی ترنگ نے پینگ بڑھائی، لڑکھڑاتے ہوئے دونوں پلنگ پر آئے۔ وصل کا زمانہ نصیب ہوا۔ بے حجابی کا وقت قریب ہوا، ہاتھا پائی ہونے لگی۔ پری زاد اگلی باتیں یاد دلا کے رونے لگی۔ کہا تم انھیں ہت کھنڈوں پر آئے جن کا انجام بُرا ہے، مزاج کیسا ہے۔ شہزادہ کو کبوتر اور ہرن بنانا، وہ رنج و ستم تنہائی میں اٹھانا یاد جو آیا، دل سے کہا: ان باتوں کا عوض ضرور ہو۔ وہی شاخ اس کے بدن پر لگا کے کہا: او کُتیا دور ہو۔ اس کلمے کا زبان پر آنا تھا، وہ پلنگ پر گر کے کتیا ہو گئی۔ ہر طرف بھونکتی پھرتی تھی۔ اور بار بار بعجز و انکسار شاہزادہ کے پاؤں پر گرتی تھی۔ یہ عمداً ٹال بال کرتا تھا، مطلق نہ خیال کرتا تھا۔ جتنی اس کی مصاحب جلیس تھیں، اس حال سے مطلع ہوئیں۔ شہزادہ کی منت کرنے لگیں، پاؤں پر رو رو کر سر دھرنے لگیں۔ کہا جس کو معشوق بنایا، خود بگڑے، رنج اٹھایا، اس کا ایسا حال کرتے ہیں، یہ فرقہ ناقص عقل مشہور ہے۔ مرد اس کی بُرائی کا بھلا خیال کر تے ہیں۔ شہزادہ نے جواب دیا کہ دو بار اس نے مجھ سے دغا کی۔ میں نے اس کی کیا خطا کی۔ دنیا کا یہی رنگ ڈھنگ ہے۔ کلوخ انداز کی پاداش سنگ ہے۔

الغرض ایک ہفتہ اس ماہ دو ہفتہ پر یوں میں گذرا۔ ہر چند سب نے اس کے سامنے سب طرح کا کھانا چُنا، مگر اس نے رخ نہ کیا، سر دُھنا۔ جب ضعف و نقاہت سے حال درہم و برہم اور سب کی خوشامد سے شہزادے کا غصہ کم ہوا، دل ہر ساعت بے قرار تھا، اس ہیئت کذائی سے اُس کا سامنے آنا ناگوار تھا۔ جی گھبرایا، خوف خدا نے ڈرایا، یہ کج ادائی بیوفائی رنڈی پر ختم ہے، جب بگڑتی ہے، جان کی دشمن بنتی ہے۔ ایسی دل میں ٹھنتی ہے، شرم و حیا، مہر و وفا سے منہ موڑتی ہے۔ بن جان لیے پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ ایک وزیر زادی اس کی بہت حسین آفت روزگار مہ جبین طرار عیار تھی۔ اس نے یہ کام کیا کہ سلیمان علیہ السلام کو ضامن دے کے یہ عہد و پیمان کیا کہ تمام عمر یہ آپ سے فریب و دغا نہ کرے گی، جو کہو گے بجا لائے گی۔ اطاعت سے سر نہ پھرائے گی، کسی کام میں انکار بخدا نہ کرے گی۔ شاہزادہ دل سے راضی تھا۔ سہو محو قصۂ ماضی تھا۔ فرمایا: گو وہ بدتمیز ہے، مگر مجھ کو تیری خاطر عزیز ہے، لے آ۔ وہ گود میں اٹھا کے روبرو لائی۔ شاہزادہ نے وہ ٹہنی اُس کے بدن پر لگائی، کہا: بقدرت خدا جیسی تھی ویسی ہی ہو جا۔ اسی دم وہ حامل غم اصلی صورت پر آ گئی لیکن آنکھ شرما گئی۔ تمام باغ میں ہر ایک گلرو غنچہ دہاں مبارک سلامت کا غل مچانے لگی۔ کوئی گانے کوئی بجانے لگی۔ ناچنے گانے کا سامان اسی آن موجود ہوا۔ شراب ناب کا جام گردش میں آیا۔ ہر ایک نے پیا کھایا۔ گذری باتوں کا، ہجر کی راتوں کا شہزادہ بیان کرنے لگا۔ اپنی مصیبتوں کا دھیان کرنے لگا۔ ابھی طرفین کے قصے پورے نہ ہونے پائے تھے، نہ کچھ صحبت کا لطف اٹھایا، نہ پلنگ پر آئے تھے، یکایک بروئے ہوا ایک تخت دیکھا، جلسہ برہم ہوا۔ ہر شخص گھبرا کے اسے دیکھنے لگا۔