شگوفہ محبت/جواب کلبہ شکن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جواب کلبہ شکن حاکم قاف کا سلطان فیروز کوہ کو، پریشان سمجھنا اس کے انبوہ کو، کلمات نصیحت مشفقانہ اس نادان کو سمجھانا، اپنی شوکت و صولت سے دھمکانا


مستوجب حمد، سزاوار ثنا حاکم جز و کل ہے جس کے روبرو جن و انس کے روشن دلوں کا چراغِ عقل گل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام پر کیسی آتش سوزاں جس کا شعلہ زمین سے تا آسمان جاتا تھا، اشارے میں گلزار کی۔ آتش افروز کی سلطنت فی النار کی۔ جب اپنے عبد کو طاقت کی قدرت معبود دکھاتا ہے تو اتنا ضعیف جثہ یعنی پشہ مغز نمرود کھاتا ہے۔ موسیؑ نے فرعون سے سرکش کو کیسا خوار و ذلیل کیا، وہ لشکر جرار بے گور و کفن غرق رود نیل کیا۔ ابابیل نے مع فیل اصحاب فیل کو مارا، کنکری نے ہاتھی سے ڈیل کو مارا۔ انس و جان کے نزدیک اشرف المخلوق فرقۂ انسان ہے، اس پر خیانت کا وہم بدگمانی حماقت کا نشان ہے۔ اگر اس گروہ حق پژوہ پر عصمت کا یقین امانت کا صادق گمان نہ ہوتا تو فرمانروائے جن و انس، وحش و طیر سلیمان نہ ہوتا۔ بشر میں کیسا کیسا نبی رسالت پناہ ہوا۔ اسی قوم سے کیا کیا اولو العزم بادشاہ ہوا۔ صاحب تاج و دیہیم ہوئے، فرمانروائے ہفت اقلیم ہوئے۔ جنوں کی سلطنت کو کس نے بگاڑا ہے، دیوؤں کو سر میدان کس نے پچھاڑا ہے۔ جس نے ان لوگوں سے سرتابی کی، اپنی خانہ خرابی کی۔ تو اپنی جمعیت پریشان پر مغرور ہوا ہے، سر پُر باد میں فتور ہوا ہے۔ یہ جاہ و جلال، ملک اور مال تیرے قبضے سے آج نہیں کل نکل جائے گا۔ سرِ میدان بضرب گرز گراں تکلے کی طرح بل نکل جائے گا۔ نمک خوارانِ جرار سپہ سالار خنجر گزار بزم طرب میں بیٹھے بیٹھے اب گھبرا اٹھے تھے، ہر دم جو یائے جنگ یہ بحر شجاعت کے نہنگ تھے؛ خیر تیری قضا کشاں کشاں لاتی ہے، ان شاء اللہ دلخواہ ان کی مراد بر آتی ہے۔ اور جس کی جانب تمھارا فاسد گمان ہے، معرکۂ نبرد میں دیکھنا وہ مردِ میدان ہے۔ دیکھیے عرصۂ جنگاہ میں عروس فتح و فیروزی کس کے کنار میں آتی ہے اور جنگل کے کنارے کس کی لاش پاش پاش بے گور و کفن ٹھوکریں کھاتی ہے۔ عرصۂ دراز سے وہ پیل تن صف شکن آمادۂ مصاف ہے، جن کا شہرہ قاف سے تا قاف ہے۔ جس دم سرِ میدان بر سرِ مقابلہ ان کی بار آتی ہے، قضا گھبراتی ہے۔ گو یہ نامدار مشتاق کارزار بہت ناز و نعم سے پلے ہیں، مگر رزم کو بزم سمجھتے ہیں۔ ایسے من چلے ہیں جس وقت بعزم گیر و دار اور دشمن کے شکار کو یہ جرات شعار راہوار اٹھاتے ہیں، حواس خمسہ عدو کے درست نہیں رہتے۔ ٹاپوں کی ضرب سے میدان حرب میں زمین کے طبقے چھ، آسمان آٹھ نظر آتے ہیں۔ ان کے روبرو مریخ کے ہاتھ سے خنجر گرتا ہے، بلکہ سوار عرصۂ فلک تھراتا ہے۔ حریف کو بجز راہ گریز اور کچھ نہیں نظر آتا ہے۔ تلوار وہ باندھتے ہیں جس کا نام برق غضب ہے، غازیان نصرت شعار ان کا لقب ہے۔ نیزہ اژدہا پیکر ان کا نیشتر، خنجر دو زبان الامان بے لاف ہے کہ گرزِ گراں کوہ شگاف ہے۔ کمند پیچدار ہے، جانستان ہر تار ہے۔ اب بھی جو عذر گستاخی کرو تو شاہزادۂ رحیم قصور معاف کرے گا؛ نہیں تو بات بگڑ جائے گی، فرار کے سوا اقرار کی تاب نہ آئے گی۔ جب وہ صف انداز عزم مصاف کرے گا، ہم جنس سمجھ کے سمجھاتے ہیں کہ قوم کی ذلت نہ ہو، آخرش تم بھی پری زاد ہو، حمیت مقتضی نہیں کہ تم برباد ہو، ورنہ سلطنت ہاتھ سے کھوؤ گے، سر پر ہاتھ دھر کے روؤ گے۔ بھلا کسی نے سنا ہے کہ بُری بات کا نیک انجام ہوا۔ والسلام

نامہ تمام ہوا۔ جب منشی نے نامہ بند کیا، ایک جرّار آزمودہ کار کو طلب کیا۔ فرمایا کہ نامہ بری کی رسم بجا لانا، زمرد کوہ میں پہنچانا۔ جب وہ رخصت ہوا، دبیر چست تحریر کو یاد فرمایا۔ ارشاد ہوا کہ حسب لیاقت شایان قدر و منزلت فرمان شقہ پروانے حکم نامے بقید تاریخ لکھے جائیں تا دیکھ کے در دولت پر سب مسلح مکمل آئیں۔ فراش خانے کے داروغہ سے فرمایا: شہر سے پانچ کوس جو وہ مرغزار سراپا بہار ہے، چشمہ پشت پر چھوڑ کے خیام ذی احتشام نصب ہوں۔ میدان جو مد نظر ہو، اس میں رزمگاہ درست کرو۔ اس کام پر مرد جنگ دیدہ تجربہ رسیدہ مامور ہو، چست چالاک ضرور ہو۔ رن گدھ بنے مورچے کھدیں، دمدمے تیار ہوں، سطحۂ صحرا شفاف رہے، نہ خس کا نام ہو نہ خار ہوں۔

اسی دم یک قلم خیمے لد گئے، سامان روانہ ہوا تا شام دشت نبرد میں تھانہ ہوا۔ بیلداروں کو حکم ملا، پھاوڑا کدال سب نے سنبھال بلندی کو پست کر کے نشیب فراز کو ہموار کیا، کنکر پتھر چُن کر خس و خار کا جدا انبار کیا۔ کہیں نقب کا ڈھنگ بنایا، کسی مورچے کا کوچہ کشاد کسی موقع پر تنگ بنایا، جو زمین سُرنگ کوتاکی تھی، متصل اس کے توپ کی جھانکی تھی۔ کہیں بارود بچھا کے دمدمے کا نشان کیا، جنگی سب سامان کیا۔ تمام جنگل میں بلندی پستی نہ رہی، یکساں ہوگیا۔ نہ جُھندی دیکھی نہ جھاڑی نظر آئی۔ جدھر نگاہ گئی، میدان جنگی نظر پڑا۔ زمین صاف جھاڑی نظر آئی۔ اس کے بعد باون گنج ننانوے منڈی کے جھنڈے گڑے، صدر کا چبوترہ بنا ، چوپڑ کا بازار سجا، دکانوں کے نشان پڑے، خیامِ شاہی کے روبرو اردوئے معلی کا طور ہوا، نقشہ ہی کچھ اور ہوا۔ دل بادل خیمہ استاد ہوا، کندلی سرائچے بیچوبے قرینے سے سجے۔ سائر کی قنات تنی، بارگاہ بنی، مسل در مسل پالیں چھولداریاں نمگیرے کھڑے ہوئے۔ سرداروں کے واسطے تنبو بڑے بڑے سواروں کی لین میں اک چوبے چوتر کے کھینچ گئے، لشکر کی آمد شروع ہوئی۔ بازاری بیوپاری کنجڑے قصائی نان بائی حلوائی کو ڈنڈئی لے گئے۔ ہر بازار کے کوتوال اہلکار نے ان کی جگہ معین جو تھی وہاں اتارا۔ سوار پیدل کی مسل نقیبوں نے آراستہ کی۔

پہر نہ بجا تھا کہ فیلی شتری نقاروں کی صدا پیدا ہوئی۔ ظل اللہ مع شاہزادۂ عالیجاہ خیمے میں رونق افزا ہوئے۔ وزیر امیر اراکین سلطنت جابجا اترے۔ سلامی کی توپ اردلی کے توپخانہ سے چلنے لگی۔ آسمان کانپا، زمین دہلنے لگی۔ تین پہر بجتے بجتے بہیر بنگاہ فوج کو تھکے ماندے خیمہ و خر گاہ سب کچھ لشکر میں داخل ہوا، لشکر میں شہر کی کیفیت کا لطف حاصل ہوا۔ دکانیں کُھل گئیں، خرید و فروخت ہونے لگی۔ بازار میں کٹورا کھنکا، خلقت ہاتھ مُنہ دھونے لگی، سرِ شام دو رویہ چوک میں گیلاس روشن ہوئے، دکانوں میں چراغ جلنے لگے، تماش بین پھرنے چلنے لگے۔ ایک طرف چکلہ بہت چوڑا چکلہ ارباب نشاط کا داروغہ جدا دو برجی رتھیں، بے سائبان کی مجھولیاں مختصر عجیب آن بان کی ہر نائکہ نے اپنے چھپرے تانے، رنڈیاں ناچنے گانے لگیں۔ بے فکروں کے ہجوم ہوئے۔ زپٹ لگّاتا خرچیاں چکانے لگیں، کسی نے لگے بندھے کو بلایا، کسی نے تازہ پھنسایا۔ تمام لشکر میں چہچہے مچے تھے، مسل در مسل لوگ خوشی کر رہے تھے۔ چار سپہ سالار جرار ہزار ہزار سوار ہمراہ لشکر کے گرد از شام تا پگاہ طلایہ کو مقرر ہوئے۔ کوتوال گشت کو اٹھا، نرسنگا پھنکا۔ نظر باز پھرنے لگے، بدمعاش گھرنے لگے۔ پاسبان چوکیدار “بیدار باش خبردار باش” پکارتے تھے۔ پلٹن کے جوان حکمِ حیدر للکارتے تھے۔

القصہ تمام شب لشکر میں توپخانہ کے جوان اور مہتمم سپاہ انجم بروئے آسمان مہتاب روشن رکھتے تھے۔ جب تک شاہ خاور اور شہزادہ پری پیکر برآمد نہ ہوتا تھا، دونوں میں سے ایک بھی نہ سوتا تھا اور در دولت پر اکاسی دیا بھولے بچھڑے کا پتا تھا۔ جو کوئی اپنی مسل یا لین گنج منڈی بازار بھول جاتا، اس کی روشنی میں آ کے پتا لگاتا تھا۔

اب دو کلمے نامہ بر کے سنو۔ وہ نوشتۂ تقدیر بے تاخیر شاہ زمرد کو دیا، منشی کو طلب کیا۔ مضمون دلخراش سن کے کلیجہ پاش پاش ہوا۔ جھنجھلا کے کہا: اس کا جواب کلکِ دبیر سے نہیں، سرِ میدان شمشیر کی زبان سے دوں گا۔ یا لب سوفار یا پیکان آبدار گوش گزار کرے گا۔ بے جواب نامہ دار رخصت ہوا۔ افسران سپاہ یلان رزم خواہ کو فوراً کوچ کا حکم دیا۔ دیوانہ وار غصہ میں مع لشکر یلغار چلا۔ یہاں تو رات عیش و نشاط میں بسر ہوئی۔ مؤذن صبح چونکا، صدائے اللہ اکبر آئی، سحر ہوئی۔ سلطان نامدار شاہزادۂ والا تبار بعد ادائے فریضۂ سحر بعزم دربار تخت رواں پر سوار ہوا۔ اہالیان سرکار، ملازمان جان نثار، وزیر امیر صغیر کبیر درِ دولت پر ہمہ تن چشم درجہ بدرجہ اپنے اپنے قرینے سے کھڑے تھے، دیدے دروازے سے لڑے تھے۔ یکایک لال پردہ چرخی پر کھچا، بسم اللہ الرحمن الرحیم کا غل مچا۔ مراتب بمراتب سب کا مجرا ہوا۔ شاہان باج گزار، وزیر امیر نامدار، سپہ سالار قطار قطار پہلوان تہمتن یلان صف شکن حلقہ باندھے آہستہ آہستہ قدم قدم دار الامارۃ میں آئے۔ سلطان والا شان تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ جن جن کا مرتبہ بیٹھنے کا تھا وہ بیٹھے، باقی دست ادب بستہ جابجا کھڑے ہوئے۔ دست راست تخت کے برابر دوسرا تخت مختصر جواہر نگار بچھا تھا، اس پر شہزادہ بلند اختر بسانِ مہر منور جلوہ گر ہوا۔ زرد گاؤ سر طلائی نقرئی برمین خود مطلا خورشید سے زیادہ چمکتا، سر تا سر الماس زمرد جڑا، پرِ ہما کی کلغی سر پر سایہ فگن شباب کا جوبن، خنجر جانستاں شمشیر اجل سے برّاں۔ کمر میں مہر و ماہ کے پھول، سپر میں فولادی داستانے ہاتھوں میں چڑھے نادر دست کے گڑھے، تیغ ہندی حمائل تیوروں پر بل، تیکھی چتون نمونۂ قدرت عز و جل۔ چشم غزال سرمہ گیں لال لال، شیر کا رعب و جلال۔ خندہ پیشانی شجاعت کے آثار سخاوت کی نشانی۔ جدھر آنکھ ملاتا تھا، شجاعوں کا زہرہ آب ہوا جاتا تھا۔ اکیس بادشاہ باون امرا کرسی نشین ستودہ آئین، پانچ سَے تہمتن، بارہ سَے گرد صف شکن مرصع کار دنگلوں پر برابر برابر کل اراکان سلطنت حاضر تھے کہ پہلے لشکر کے کوتوال کا پرچہ گذرا، وزیر اعظم پڑھنےلگا، ہنوز ناتمام تھا۔ دوپیک صبا دم صرصر سے تیز قدم غبار آلودہ، ماتھے سے پسینہ ٹپکتا نمود ہوئے، چوبدار پکارے “سلطان خوش خو نگاہ روبرو”۔ شہر یار خجستہ اطوار نے ادھر آنکھ اٹھائی، ہرکاروں نے پایۂ تخت کا بوسہ لے کر تسلیم کو گردن جھکائی۔ پھر سر اٹھا دستِ دعا بلند کر کے کہا ؂

الٰہی تا جہان باشد تو باشی

جہان را تا نشاں باشد تو باشی

رہیں اس در پہ ہر دم مثل دربان

شہِ روم و عجم اور چین کا خاقان


عمر و دولت شاہنشاہ خضر سے اور خزانہ خسرو سے افزوں ہو، دشمن تیرہ روزگار زار و زبوں ہو۔ قریب میدان کارزار لشکر شکست اثر حریف آ پہنچا، میدان نبرد کی ہیبت سے ہر شخص کا چہرہ زرد ہے، رعب چھایا ہے، پہلوانوں کا دم گھبرایا ہے۔ لب پر آہ سرد ہے۔ آمادۂ فرار با رخ پُر گرد ہیں، بدحواس زن و مرد ہیں، نو لاکھ از روئے شمار ہیں۔ چار لاکھ پیادے پانچ لاکھ سوار ہیں۔ شوکت افواج قاہرہ کثرتِ یلان خنجر گزار سے سب کو اضطرار ہے۔ جان کے خوف سے چھوٹا بڑا مغموم ہے۔ بہیر بنگاہ ملا کے بارہ لاکھ کا ہجوم ہے۔ لشکر ظفر پیکر کی مفصل خبر جو پائی ہے، چہروں پر مردنی چھائی ہے۔ سواروں کی خود فراموشی کا ادنیٰ یہ نکتہ ہے اگاڑی کو پچھاڑی سمجھ کے اُلٹا گھوڑا باندھتے ہیں، پچھاڑی میں کلخور ٹٹولتے ہیں۔ گھوڑے کے بدلے چار جامہ باندھتے ہیں۔ جو کوئی ہنسا تو شرمندہ ہو کے کھولتے ہیں۔ اور پیادوں کے ایسے ہاتھ پاؤں پھولے ہیں مسل کیسی کمیدان کا نام، پلٹن کا نشان بھولے ہیں۔ جس جا خیمۂ سلطانی نصب ہوتا ہے، وہاں تماشا عجب ہوتا ہے۔ ایک فراش اپنے انداز پر آ کر میخ گاڑتا ہے تو دوسرا عمداً اس کا نقشہ بگاڑتا ہے اور بے چوبا جس نے استاد کیا ہے سب نے اس کو اُستاد کیا ہے، اس بل پر وہ کسی کی کب مانتا ہے، داروغہ ہاں ہاں کرتا ہے، وہ شامیانے کے عوض سائر کی قنات تانتا ہے۔ جو مہتمم فراش خانہ ہے، وہ نرا دیوانہ ہے۔ بسنتی خیمہ کی خاطر فراش زرد چوب کا جب نام لیتا ہے، وہ پنساری بن کے بیٹھا ہے۔ ہلدی کی گرہ اپنی گانٹھ سےکھول کے دیتا ہے۔ ملازم سرکاری ہے یا بازاری ہے، شیطان نے سب کی عقل ماری ہے۔ خوف سے حواس غائب، ہوش گم ہے، تمام لشکر میں تلاطم ہے۔ برگشتہ سب سے اقبال ہے، مجنونوں کا حال ہے۔

القصہ خبرداروں کو حسب ضابطہ انعام ہوا اور وہ دن تمام ہوا۔ سرِ شام بفرحت تمام حکم پہنچا کہ طبل جنگ بے درنگ بجے۔ سب آگاہ ہوں دم سحر ملک الموت کی گرم بازاری ہے، دم نقد جان کی خریداری ہے۔ سر تن سے جدا ہوگا، زخم کے ہار ملیں گے۔ خنجر و سنان کے پھل کھا کے دشمن کا لہو پینا ہے۔ سرخرو ہو کر مرنے کا نام جینا ہے۔ یہ خبر سن کے نقارچیوں نے طبل اسکندری کو سینک کر چوب دی۔ نقارۂ جنگی کوس حربی کی کوسوں صدا پہنچی۔ حریف کا لشکر قریب تر تھا، صدا کا منتظر تھا۔ وہاں بھی حکم آیا، نقارہ بجایا، دشت نبرد کانپنے لگا، خورشید باخ زرد ہانپنے لگا۔ تمام رات سونے کی نوبت جری اور نامرد کو نہ آئی، نیند فرد فرد کو نہ آئی۔ بہادر تو رزم و پیکار کی تدبیر سوچتے تھے، بزدلے گھبرا گھبرا کر منہ نوچتے تھے۔ من چلے مشتاقانہ مورچوں کو غور کرتے تھے، ہنس ہنس کے رزمگاہ دیکھتے تھے۔ ڈھل گنڈے لمبے ہونے کا طور دیکھتے تھے، رو رو کے بھاگنے کی راہ دیکھتے تھے۔ جرّار خَود بکتر زرہ جامہ کھولتے تھے، بدحواس گڑگوڈر ٹٹولتے تھے۔ یہاں چہروں پر سرخی چھائی تھی، وہاں منہ پر ہوائی تھی۔ صبح تک جانبین میں تیاری بیداری رہی۔ آنکھوں میں رات کٹی، ہوشیاری رہی۔ دم سحر بصد کر فر اَریکہ آرائے زنگاری مشرق سے نمودار ہوا، ظلمتِ شب روبفرار ہوئی، صبح کا سفیدہ آشکار ہوا۔ دونوں بادشاہ جنگجو رزمخواہ سوار ہو کے میدان حرب میں آئے اور سوار پیدل نے اپنی اپنی صف اور پرے جمائے۔ طرفین سے نقیب نکلے، ہٹے کو بڑھایا۔ جو انداز سے نکل چلا تھا، گو بانکا ترچھا تھا۔ سیدھا کر کے صف میں ملایا۔ پھر کڑکیت کڑکے، خوش الحانیوں سے تڑکے تڑکے آوازے سنائے۔ شجاعوں کی مونچھوں کے بال بودوں کے رونگٹے فی الحال کھڑے ہو آئے۔ پکارے کہ اے بہادرو! نریمان ہے نہ سام ہے، نہ صفحۂ ہستی پر نشان زال خون آشام ہے۔ برزورہا نہ بیزن ہے، نہ اس بلندی پستی پر اسفند یار روئیں تن ہے، کیسے کیسے بہادر صف شکن تہمتن نوجوان رستم و ستان پیر فلک نے بچشم زدن ہلاک کیے، تہِ خاک کیے۔ پردۂ زمین پر ان کا پتا ہے نہ نشان ہے۔ مگر جرأت سے نام باقی جانفشانی کی داستان باقی ماندوں کی برزبان ہے۔ جانیں لڑا کے ساکھے کر گئے ہیں، وہی زندہ جاوید ہیں، گو مر گئے ہیں۔ ازل سے تیغ اور گردن میں لاگ ہے۔ تلوار کی آنچ مشہور ہے، گیلی سوکھی دونوں جلتی ہے، یہ وہ آگ ہے قدردان سرِ میدان نظارہ کناں ہیں۔ اپنے جوہر دکھاؤ، دونوں کو گلے ملاؤ، جرات کے کام کرو ؏

دورِ مجنوں گذشت نوبت ما ست


دور وزہ زیست میں نام کرو، جس کا قدم معرکہ میں ڈگ جائے گا، وہ کہیں آبرو نہ پائے گا۔

پگ آ گے پت رہے پگ پاچھے پت جائے

تلسی جگ مان جس رہے محنت کرے سو کھائے


یہ صدا دلیروں کو نیستان شجاعت کے شیروں کو شراب پرتگال ہوئی۔ بہادری کا نشہ آ گیا۔ آنکھ ہر ایک کی لال ہوئی۔ دفعۃً پری زاد فرخ نژاد نام ثانی سام ست راست کا سالار بشوق کارزار پرے سے نکلا، گھوڑا چمکا کے نیزۂ دوزبان سنبھالا، پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور اجازت میدان اس نوجوان نے چاہی۔ شہزادہ فیروز بخت برابر تخت کے تھا، گوشہ چشم سے ساغر تمنا اس کا لبریز کیا، آداب بجا لایا، صرصر صبا دم کو تیز قدم جنگاہ کی طرف مہمیز کیا۔ گھوڑے کو پوئی کاوے اٹیرن لگا، سرپٹ اڑا نیزے کے طعنے دکھا، مبارز طلب کیا۔ پکارا کہ جس کا جام حیات بادۂ ممات سے لبریز ہو، وہ معرکہ میں گرم خیز ہو۔ فوج مخالف سے ایک پیل تن بسانِ اہرمن کرگدن بڑھا کے مقابلہ میں آیا۔ پہلے تو حسب و نسب بیان کیا، پھر لاف گزاف کے کلمے زبان پر لایا۔ فرخ نژاد والا نہاد نے دست بازو سے عجیب دلیرانہ کار لیا، دو چار طعنوں کی رد و بدل ہوئی، پھر نیزے کی نوک پر اٹھا کے مار لیا۔ دونوں لشکر سے بے ساختہ واہ واہ کی صدا پیدا ہوئی، روح اس کی جسم سے بحال تباہ نکلی۔ اب لڑائی چھڑ گئی۔ مر جانے کی راہ نکلی، تاشام اس خون آشام نے صبح کر دی۔ دس بارہ نامی مخالف کا پہلوان مارا، حقیقت میں میدان مارا۔ اس عرصہ میں شاہِ انجم سپاہ بتماشائے رزمگاہ برآمد ہوا۔ چادر سیاہ سمت حریف پھیلائی، پرسُے کو تیرہ بختوں کے شب دیجور آئی۔ طبل بازگشت بجا، ادھر کے پہلوان بفتح و نصرت اُدھر برگشتہ عنان بصد خفت و ذلت اپنے اپنے ڈیرے خیمہ میں داخل ہوئے۔ حارس و نگہبان پاسبانی کرنے لگے، لشکروں کی نگہبانی کرنے لگے۔ تمام شب کوئی تو اپنے عزیز و اقربا کو روتا رہا، جو فتح نصیب تھا وہ پاؤں پھیلائے سوتا رہا۔ دمِ سحر جس دم سریر آرائے گنبد نیلی فام بشوکت تمام مشرق کے جلو خانہ سے تاباں ہوا، دونوں طرف پھر جنگ کا سامان ہوا۔ عرصۂ جنگاہ میں شاہانِ رزمخواہ رونق افزا ہوئے، فوجوں کے پرے صف آرا ہوئے۔ میمنہ میسرہ قلب و جناح ساقہ کمینگاہ نقیبوں نے ہموار کیا، صفوں کو تیار کیا۔ قلب سپاہ میں بادشاہوں کی سواری آئی۔ من چلوں نے گھوڑے بڑھائے، جان نثاری کی باری آئی۔ غرہ سے تا سلخ وہ لشکر فزوں از مورد بلخ لڑتا رہا۔ روز لاشوں کا انبار گرتا رہا۔ دو ہزار نامور اُدھر کا تین چار سَے پری پیکر اِدھر کا تہ خاک ہوا، ہلاک ہوا مگر قصہ نہ پاک ہوا۔ دوسرے مہینے شہزادۂ نیک نہاد نے بانیِ فساد کو پیام بھیجا کہ اسی طرح ہر روز بے گناہوں کی جان جائے گی، گنجلک نہ مٹے گی، لڑائی فیصلہ نہ پائے گی۔ ہم تم باعث فتنہ بانیِ شور و شر ہیں مدعی ہمدگرہیں، لازم ہے کہ سرِ میدان دل کے ارمان نکالیں۔ یلان رزمخواہ سران سپاہ تماشائی خاموش رہیں، بولیں نہ چالیں، یہ کارزار دار ناپائدار میں یادگار رہے۔ غیر کا خون کیوں بہے، جس کا یاور اقبال ہوگا، دوسرا اس کے ہاتھ سے پامال ہوگا۔ دیکھیے رن کا نوشاہ کون ہوتا ہے۔ عروس فتح کس سے ہمکنار ہوتی ہے۔ والی وارث کس کا روتا ہے۔ سرِ میدان کس کی لاش ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ جس دم یہ جملہ شاہزادۂ زمرد کوہ کے گوش زد ہوا، آنسو پچھے فرحناک از حد ہوا۔ بسکہ اس کو اپنی تنومندی کا بھروسا، زور و طاقت کا سہارا تھا، بارہا سرِ میدان ہزراہا زبردست پہلوانوں کو مارا تھا، جواب دیا کہ الحمد للہ شاہد مراد نے چار آئینہ فولاد میں صورت دکھائی، یہی تمنا تھی سو بر آئی۔ تاریخ نہم مع الخیر ہمارا تمھارا مقابلہ ہے، بڑی سیر کا معاملہ ہے۔ جس وقت خبردار پھر آئے اور یہ خبر لائے، لشکروں کو بازگشت ہوئی لیکن چرچا مچا کہ یہ لڑائی نئے ایجاد سے ہے۔ انسان کا مقابلہ پری زاد سے ہے۔ ہر چند بادشاہ نے شہزادۂ عازم نبرد کو با دل پر درد سمجھایا کہ بابا ان نوجوانوں کو گردن کش پہلوانوں کو اسی دن کی خاطر زر و جواہر دے کر پالا ہے، بارہا دیکھا بھالا ہے؛ کچھ کام نہ آیا۔ ادھر غول کے غول جراروں کے غٹ کے غٹ جنگ آزمودہ سپہ سالاروں کے دست بستہ روبرو آ ئے، غرض کہ ہم چشموں میں عزت و توقیر ہماری نہ رہے گی، دونوں طرف کی فوج کیا کہے گی۔ حضور مشغول جنگ ہوئے، ہم دنیا میں بے نام و ننگ ہوئے۔ ایک تو آپ مسافر اور مہمان، وہ قوم بنی جان زبردست فیل مست، خدانخواستہ اگر لڑائی بگڑ جائے گی، گلے کاٹنے کی نوبت ہماری آئے گی۔ شہزادۂ جری نے فرمایا: محبت سے یہ کلمہ تم نے کہا، حافظ حقیقی بہرحال ہمارا یاور و نگہبان ہے، دیکھ لینا جو ہوگا یہی گو یہی میدان ہے۔

القصہ آٹھویں تاریخ نویں شب آئی۔ ترقی خواہوں کی مع بادشاہ جان بلب آئی۔ شہزادہ نے بعد فرائص صبح دستِ دعا بدرگارہ خدا بلند کر کےکہا: اے مدد گار جن و انسان! خلاق زمین و آسمان! نام کو باقی رات ہے، دمِ سحر مقابلۂ کوہ پیکر ہے۔ اس ضعیف الجثہ کی آبرو تیرے ہاتھ ہے۔ دشمن کو اپنے زور بازو کا سہارا ہے، مجھ کو لا تقنطوا کا سہارا ہے۔ یہ کہہ کے تاج کیانی سے سر، لباس سلطانی سے جسم انور آراستہ کر ہتھیار لگائے۔ نیا رواج کیا، خود زیر تاج کیا۔ زرہ گا ؤ سر پر چار آئینہ لگایا،فتح و فیروزی کا نقشہ نظر آیا۔ آفتابی سپر اس ماہ پیکر نے زیب پشت کر کے بوندی کی کٹاری لکہ ابر رحمت نے کمر میں رکھی۔ تسمے کی لاگ سپر میں رکھی۔ فولادی دستانے زر نشان زیب دست تھے۔ نئے انداز سے ہتھیاروں کے بند و بست تھے۔ تیغ ہندی پٹھ چرا خمیرا دبلا رنگ الماسی آب نایاب باڑھ اجل کی گھاٹ تک لہو کی پیاسی حمائل کی، قبر میں پیٹھ نہ لگے جس کے گھائل کی۔ تپنچے ولایتی جن کے توڑ سے بندوق کا جی چھوٹ جائے، قبور میں لگائے۔ اسپ صبادم فرفر کرنے لگا، آمد دیکھ کے طرارے بھرنے لگا۔ شہزادہ نے یا علی گردن پر انگشت شہادت سے لکھا۔ حلقۂ رکاب ہمہ تن چشم منتظر قدم تھا۔ ایال پر ہاتھ ڈال رکاب میں پاؤں لگا گھوڑے کی پیٹھ پر پہنچا۔ جلوہ دار نے دامن قبا درست کیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا شور عظیم ہوا۔ قربوس زین میں ملتانی کمان کھنچ آئی۔ لب سوفار کی دعا قبول ہوئی کہ اب سرخروئی حصول ہوئی۔ ترکش نے کمر کے متصل رونق پائی۔ ہر نے پر کمند کے لچھے ڈالے، ساز یراق گنڈے اچھے سے اچھے ڈالے۔ دست راست میں نیزۂ دو سر اژدہا پیکر، بائیں میں عنان رشک صرصر سر فلک فرسا فروتنی سے خم کیا۔ ناد علی کو دم کیا۔ میدان کو دیکھ کے تیور پر بل آئے، نشۂ جرأت سے دیدے اُبل آئے۔ چہرے کا رنگ جوانی کی ترنگ میں گلنار ہوا۔ گھوڑے کو پٹری سے مسک کے گرم رفتار ہوا، سمند برق دم ہر قدم تڑپ کے جولانی کرتا تھا، زیر ران گرم عنائی کرتا تھا۔ شہسوار بے بدل نے خانۂ زین میں سنبھل کے ٹھکرایا۔ پہلے طرارے میں تخت کے برابر اتارا، مردہا نگاہ روبرو پکارا۔ بادشاہ متوجہ ہوا، یہ آداب بجا لایا۔ رخصت خواہ ہوا۔ والیِ قاف نے آنسو آنکھ میں بھر کے تاج شاہی ہاتھوں پر دھر کے برآرندۂ حاجات مجیب الدعوات سے عرض کی کہ تو قادر توانا علیم و داتا ہے، مہمان کا معرکہ میں جانا ہے۔ اے رحیم یہ فتح پائے، میری آبرو رہ جائے۔ پھر کہا: بحافظ عالم سپر دم اللہ معکم اینما کنتم۔ تمام فوج نے بلبلا کے کہا: پروردگار تو اس کی مدد کرنا، جو بلا آئے اپنے کرم سے رد کرنا۔ شہزادہ گھوڑے کو چمکاتا راکب و مرکب کا جوبن دکھاتا چلا۔ پرے کے برابر آتے ہیں گھوڑا دبا کے سن سے نکل گیا۔ بوئے گل کی طرح چمن سے نکل گیا۔ یا تو سب فوج کی نگاہ میں تھا، دو لنبیاں گھوڑے نے کیں، رزمگاہ میں تھا۔ میدان میں چار طرف نگاہ کی، گھوڑے کی باگ لی، رجز پڑھ کے آگے بڑھ کے اپنا حسب و نسب بآواز بلند سنا، مبارز طلبی کی پھر اس انداز سے نعرہ مارا کہ جانور پرواز سے رہ گئے، دونوں لشکر دہل گئے۔ فلک پیر الامان پکارا، مجبور با دل رنجور حریف کوہ پیکر دیو منظر ہمہ تن غرق دریائے آہن کرگدن پر سوار بچشم خونخوار کف در دہان، بزدلی پن پر شیر کی صورت غرّاں روبرو آیا۔ تنور سے مشابہ تر، خود سر، پرغرور، پر دام، زرہ میں نہنگ سا پھنسا، چار آئینہ میں موت کا منہ دیکھتا، تلوار جو کبھی میان سے باہر نہیں نکلی ران کے نیچے دبی، سپرپس پشت کلنک کا ٹیکا، دستے میں تیر سراسری؛ شہزادہ کے رعب سے لب سوفار خشک، کمان کا رخ اترا، برچھا کرگدن کے کان پر سر نگوں، خنجر کی بے آبی کیا کہوں دستے تک اودا سا کرگدن میں مٹھا پن گویا بھینس زیر ران، خنجر بے جوہر آب نایاب داسی اُ داسی یہ کُھلا کہ باندھنے والے کے خون کی پیاسی، سوار حیران آتے ہی ہم تگادر ہوا۔ عجب دھماکا پیدا ہوا کہ فوج دہل گئی، پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میدان زیر و زبر ہوا۔ دس بارہ قدم گینڈا بیدم ہو کے ہٹا، تھرانے لگا۔ تین چار قدم اسپ برق دم ہٹ کے اپنی چمک بدستور دکھانے لگا۔ کئی روز پیشتر اس لڑئی کی خبر مشتہر ہو چکی تھی کہ پری پیکر گل عذار کا دیو خونخوار سے اب سامنا ہے، غضب سا منا ہے۔ تمام ساکنان پرستان ایک سمت کو نظارہ کناں تھے اور ہزارہا پری اور پری زاد بروئے ہوا میدان میں گھر آئے تھے۔ زمین پر فوجوں کے دل آسمان پر اُن کے بادل چھائے تھے۔ آفتاب نظر نہ آتا تھا، اندھیر ہوا جاتا تھا۔ دفعۃً اُس تنگدل نے گزر گراں سنگ عرابی سے اٹھایا، شہزادہ کا جلو دار بھی گرز روبرو لایا۔ چار گھڑی کامل وہ دھما دھم ہوئی کہ زیر زمین مچھلی بیدم ہوئی۔ صفحۂ میدان کرۂ آہنگراں سراسر ہوا۔ گوش گردوں گردان کر ہوا۔ اُسی گرمجوشی میں شہزادۂ بلند اختر نے بقوت تمام تر رکاب سے رکاب ملا کے گرز لگایا، حریف نے گرز پر روکا۔ ایسی ضرب کڑی پڑی کہ عمود کا کلہ نابود ہو کے دستے میں اتر آیا، گینڈے کی کمر میں بل پڑا۔ سواری میں خلل پڑا۔ پیادہ ہو کے گھوڑا مانگا، اس پر ناچار سوار ہو کے شرم سے کسی طرف دیکھا نہ بھالا۔ نیزہ سنبھالا اور شہزادہ کا سینہ حُسن کا گنجینہ تاک گھوڑا ڈبٹایا، دونوں جانب کے پیدل سوار نیزہ دار سمجھے کہ پورا وار ہوا، برچھا دو سار ہوا۔ یہاں فضل الٰہی شامل حال تھا، وہ کیا مال تھا۔ اس چستی اور پھرتی سے شاہزادہ نے بدن کو چُرایا، ہوا کا بھی صدمہ بدن تک نہ آیا۔ اسپ صبا خصال کا عجب حال تھا۔ اس سناٹے سے پھرتا تھا کہ پتلی تو پتلی پھر کے دیکھ لیتی تھی۔ مگر گردش میں سُم اور نعل، وہم اور خیال کے حلقۂ تصور میں نہ گھرتا تھا۔ صُمٌ و بکمٌ کا طور تھا، نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ مردم دیدہ بغور تمامتر تکتے تھے، نقش پا کو دائرہ نظر میں نہ لا سکتے تھے۔ زمین کو رشک آسمان چال سے بناتا تھا، اس چمک سے آتا جاتا تھا۔ جس جگہ نشان نعل بن جاتا تھا، وہ پھر آنے میں بدر ہوتا تھا۔ جانے میں جو ہلال بن جاتا تھا، جہاں جہاں اس نے پاؤں اتارا تھا، میخ کا نشان تارا تھا۔ چمک جانے میں برق جہندہ کا شرارہ تھا۔ گھوڑا کیا تھا سیماب کا پارہ تھا۔ برچھا لگانے میں حریف نے جو منہ کی کھائی تھی، مع گھوڑے زمین پر گرنے کی نوبت آئی تھی۔ مگر شہزادۂ رزم آزما نے اس بدحواس کا پاس کیا۔ بسرعت تمام تر وار خالی دے کر گھوڑے کو پلٹا ٹوک لیا۔ نیزہ دو زبان کی ڈانڈ سے گرنے نہ دیا، روک لیا۔ مرحبا صلی علیٰ کی صدا ارض و سما سے آنے لگی۔ نیزہ بازوں کی جان جانے لگی۔ وہ ننگ دودمانِ شاہی مزاج کا واہی بل کھا کے جھلا کے پھر ڈانڈا ینڈی پر مستعد ہوا۔ دو اژدر سیاہ بسان دو آہ باہم پیچاں تھے، دیکھنے والے واہ واہ تو کہتے تھے، مگر انگشت حیرت بہ دہان تھے۔ برق غضب کی طرح سنانیں لڑ کے چمک جاتی تھیں۔ شرارے پیدا ہوتے تھے، تماشائیوں کی آنکھیں جھپک جاتی تھیں۔ اس نے بند باندھا تو اس نے بہ کشادہ پیشانی کھول لیا۔ کبھی وہ بڑھ آیا، گاہ اس نے رول لیا۔ ڈانڈ سے ڈانڈ مع سنان و بنان باہم لڑ کے لپٹ جاتے تھے۔ کئی نیزے چرخ سے بلند ہو کے آپس کی کھٹا پٹ جاتی تھی۔ آخر کار شہزادۂ نامدار نے ایک پیچ میں باندھ کے گھوڑا اُڑایا، سب نے دیکھ کہ اڑاڑا کے وہ خشمگین بروئے زمین آیا، لیکن وہ تو گرتے گرتے گھوڑے پر سنبھل گیا، مگر ہوائی کی طرح نیزہ ہوا ہوا ہاتھ سے نکل گیا۔ دونوں جانب سے تحسین و آفرین کے نعرے آنے لگے۔ ہوا خواہوں کی یہ نوبت ہوئی فرط خوشی سے شادیانے بجانے لگے۔ صبح سے دوپہر ڈھل گئی تھی۔ سب بے دانہ و آب بھوک پیاس سے بے تاب تھے۔ فرمانروائے قاف نے فوراً طبل بازگشت بجوا دیا، پنجۂ قضا سے بچوا دیا۔ شہزادۂ یاسمین پیکر بافتح و ظفر وہ شکست نصیب خائف و خاسر میدان سے پھرا۔ سلطان قاف شاہزادہ کو گلے سے لگا برابر تخت پر بٹھا خیمہ میں داخل ہوا۔ وہ بداسلوب محجوب برگشتہ قسمت اپنے فرودگاہ کی طرف پھر ا۔ یہاں بزم طرب میں سب چہچہے کرنے لگے، مصروف جشن وہ شیر بیشہ ہوا۔ وہاں مجمع اندوہ و ملال رہا، چھوٹا بڑا کوفت میں خراب حال رہا۔ سحر مصاف کا سب کو اندیشہ ہوا کہ آج تو سرِ میدان یہ ذلت کا سامان ہوا۔ خدا جانے کل کیا ہوگا۔ شگون زبوں ہوا، انجام کار بُرا ہوگا۔ بات کی بات میں رات تمام ہوئی۔ صبح کا سفیدہ چمکا۔ لشکر میں ملک الموت آ دھمکا۔ نقیبوں نے شکست نصیبوں کو بیدار، سوار پیدل کو آمادۂ کارزار کیا۔ اُدھر شہر یار قاف اور شاہزادہ وارد میدان مصاف ہوا۔ ادھر کے سوار پیادے مرگ کے آمادے پرے جما کے کھڑے ہوئے۔ دہ دمِ صبح نور کا تڑکا سرد سرد ہوا کے جھونکے صرصر و صبا کے جھونکے، خوش آواز کڑکیتوں کا کڑکا، صحرا گلزار پہاڑ کی ڈانک پر آبشار، پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو مہک چار سو، جانورانِ خوش الحان درختوں پر حمد خوان جابجا، جھیلیں تالاب بھرے گرد وہاں کے کھیت ہرے، دونوں سمت پری زادوں کے پرے، بیچ میں رن ہزاروں بے گور و کفن، کوئی گل عذار کوئی غنچہ دہن، لب خشک، زخم ہرے، لڑائی کا کھیت، غیرت گلشن، عبرت کی جا، حیرت کا مقام، لاشوں کے گرد دد و دام، کسی کے چہرے پر چمک دمک، کسی کے منہ پر اداسی، کہیں دلجمعی، کہیں بدحواسی، موت کی گرم بازاری، جان کا لین دین سر کی خریداری، دنیا کی بے ثباتی دولت کی ناپائداری، حکومت کا ساز و سامان خواب پریشان، جیتے جی قصہ بکھیڑا، ملکی مالی مر گئے تو ہاتھ خالی مشہور ہے کہ دو گز کفن ساتھ جاتا ہے جب خاتمہ بالخیر ہوتا ہے، یہ نہیں سمجھتے کہ اپنے اختیار میں نہیں عطیۂ غیر ہوتا ہے۔ کچھ تو ایسی ایسی سوچ میں تھے، بہت محو سیر و تماشا تھے، بچشم غور دیکھنے کے سامان مہیا تھے۔ دو دریائے فوج موج در موج کیا کیا نہنگ بحر دغا ماہی مراتب کے پاس کھڑا، پرزر پھریرے مُغرّق عَلَم اور نشان کھلے، ہر طرح کے باجے بجتے، لڑائی پر تُلے، زیست سے سیر حکم کی دیر، سب کو یہ خیال تھا کہ آج دیکھیے کون سا دلیر کس پر ہت پھیر کرتا ہے۔ کون زبردست کس کو زیر کرتا ہے۔ دفعۃً جو علمدار روبروئے سلطان نامدار کھڑا تھا، اس نے علم کو جلوہ دیا۔ شہزادۂ صف شکن مثل تہمتن پرے سے نکلا، رزم کو بزم سمجھ کے مرکب پری نژاد کو جھجکارا، حد پر پہنچ کے نیزہ گاڑ دیا۔ حریف کو ڈانٹ للکارا، وہی دام مرگ کا اسیر با دِل دلگیر دہن نہنگ میں دلتنگ چلا، مقابل ہوتے ہی وہ تلوار جس پر اعتبار تھا کھینچی، شاہزادہ نے بھی قبضۂ شمشیر صاعقہ خصال پر یا ذو الجلال کہہ کے ہاتھ ڈالا، باہم تلوار چلنے لگی۔ قضا رک کے اس کے حال پر کف افسوس ملنے لگی۔ دیر تک دھاوا شپاشپ چھپا چھپ رہی۔ اسی چالاکی میں تپنچے کی چوٹ پر شہزادہ کی شمشیر اس شریر کے کلے پر جو چمک گئی، آنکھ خیرہ سر کی جھپک گئی۔ دفعۃً شہزادہ عیار نے کمند کے حلقے میں گردن اس سرکش کی بند کر کے چاہا تھا کہ جھٹکا مارے، گھوڑے سے زمین پر اتارے، برق غضب اس کا عیار جلودار تھا۔ ناگاہ نگاہ اس کی پڑ گئی کہ کمند پیچان گردن میں گڑ گئی۔ اس چمک سے خنجر پکڑ کے حلقے کاٹے کہ گردن تو رہا ہوئی، مگر پیچ میں کمند نہ معلوم ہوئی کہ کیا ہوئی، عیار سنبھلنے نہ پایا تھا کہ شہزادۂ قوی بازو نے ڈانٹ کر تلوار ڈالی، مع خنجر کلائی کاٹ دالی۔ حوصلہ اس کا پست ہوگیا۔ پری زاد کا بازو ٹوٹا، وہ بیدست ہوگیا۔ پھر بدستور وہ صور شمشیر زنی کوہ کنی میں مشغول ہوا ۔اس چستی سے وار ہوتے تھے کہ ڈھالوں کے پرزے ہر بار ہوتے تھے۔ القصہ باد خزاں حسام سے ڈھالوں کے پھول جھڑ گئے اور تلوار زخم رسانی سے عاری ہو گئی، دندانے پڑ گئے۔ سپر پاؤں پر گری اور صمصام دانت نکال کر کِری، اس وقت سوچے کہ اس کا یہ حال ہوا، نیزہ بازی گرز زنی کا کچھ نہ مآل ہوا۔ یہ تینوں کام بے سود ہوئے، یہ سمجھ کے دونوں دلاور گھوڑوں سے برابر کود کے کُشتی کو موجود ہوئے۔ کمروں میں ہاتھ پڑ گئے، زمین میں قدم گڑ گئے۔ مگر وہ دیو مازندران یہ گل اندام جوان، اُس کا باپ تو بیٹے کا قد و قامت، زور و طاقت دیکھ کے شاد ہوا۔ سلطان قاف بدرگاہ خدا دعا کرنے لگا، سرگرم نالہ و فریاد ہوا۔ ان دونوں کا یہ حال تھا کہ کسی کا تصور نہ خیال تھا۔ مگر شاہزادہ جب پیچ میں باندھتا تھا تو اس کا بند بند بایں تنو مند ٹوٹتا تھا، کھولنا محال ہوتا تھا، ہر بار جی چھوٹتا تھا۔ تاوقت زوال ایک سا حال رہا۔ اب پری زاد کا دم پھولنے لگا۔ داؤ پیچ بھولنے لگا، جب زور گھٹنے لگا، دب کے پسپا ہوا، پیچھے ہٹنے لگا۔ شاہزادہ نے دم سنبھلنے نہ دیا، خوب ریلا؛ اُس نے اور کھیل کھیلا، جھلا کے لنگر مارا، پاؤں کو زمین میں اتارا کہ دم درست کر لے، جسم کو چست کر لے۔ شہزادہ بھی استاد تھا، ہزارہا پیچ یاد تھا، دفعۃً کمربند میں دونوں ہاتھ ڈال کے باتوں میں ٹال کے الا اللہ کہہ کے ہِکہ جو لگایا، وہ کوہ پیکر پرِکاہ سے بدتر اکھڑ آیا۔ مہلت نہ دی، پھرتی کی، بے گزند سر سے بلند کر کے بقوت تمامتر اس طرح سے پٹکا کہ صاف دم نکل گیا، کہیں نہ اٹکا۔ چاہا تھا کہ پہلو میں قرولی اتار دے یا تلوار کا ہاتھ مار دے۔ مگر خیال جو کیا تو گرتے ہی فنا ہوگیا، راہی ملک بقا ہوگیا۔ ہاتھ روک کے پشتِ مرکب پر آیا، جلو دار نے فتح مبارک کا شور مچایا۔ اس کے باپ نے جو دیکھا جوان بیٹا مارا گیا، پیری کا سہارا گیا، تاج کو پٹک نعرہ کیا، جگر چرخ پارہ کیا۔ تخت کو بڑھایا، فوج کو پکارا کہ تم دیکھتے ہو وارث سلطنت جہاں سے سدھارا۔ یہ سن کے افسروں نے باگ اٹھائی، فوج چار سمت سے گھر آئی۔ ادھر سے سلطان قاف بگٹٹ جا پہنچا۔ ہمراہ رکاب چھوٹا بڑا آ پہنچا۔ دونوں دَل سوار، پیدل غٹ پٹ ہو گئے۔ باران تیر صاعقہ شمشیر پڑنے گرنے لگا۔ ہر طرف لوہا برستا تھا، بجز آبِ شمشیر و خنجر زخمی پانی کو ترستا تھا۔ اولے کی طرح سر سراسر گرنے لگے۔ دریائے خون رن کے کھیت میں موجزن تھا، کشتہ ہر ایک بے گور و کفن تھا۔ دھاوا کا غل، شپاشپ کا شور، جو وار خالی گیا تو سَن سَن کا لطف تھا، زخموں کے ہار تیروں کے گھاؤ، سوراخ دار خون کے سہرے، جوانوں کے چہرے، مرد و نامرد پر دولہا دلہن کا لطف تھا۔ ہر شخص شناور بحر خون تھا، گلنار جیحون تھا۔ بہتی ڈھالوں پر کچھووں کی ڈھالتے تھے، کاسۂ سر حباب بن کر موجۂ خون سے سر نکالتے تھے۔ دھڑا دھڑ میں غوطے کھا کے ٹکراتے تھے۔ زرہیں دام مرگ ہو گئی تھیں۔ جنجال میں مردے زندوں کو پھنساتے تھے۔ جابجا کُشتوں کے انبار رہ گئے۔ تیروں کی کثرت سے روحیں اڑ گئیں، لاشے پر دار رہ گئے۔ ثابت ہوتا تھا کہ ان کا وارث ہے نہ والی ہے۔ مرغ روح مجروح پرواز کر گیا۔ قفس جسم خالی ہے۔ کشتوں کا رنگ نرالا تھا۔ شہزادے کی تلوار کا جو زخم تھا، وہ آلا تھا۔ پیکان تیر مثل زبانِ دہن زخم سے یہ تقریر کرتا تھا کہ کس کا منہ ہے جو اِن بہادروں کے سوا لوہے کے چنے چبائے، مرنے کی بدنامی سے چھٹ کے زندہ جاوید ہو جائے۔ عجیب عجیب معاملے معرکہ میں نظر آتے تھے۔ سوار تو پیدل ایٹرن پڑے تھے، خالی گھوڑے تنگ ہو کے کاوے لگاتے تھے، آقا کے لیے ٹاپتے تھے۔ لاش کی تلاش تھی، مگر وہ پہچانی نہ جاتی تھی، ایسی پاش پاش تھی۔

القصہ نوجوان بیٹے کے سرِ میدان قتل ہونے سے بوڑھا باپ جنگ کی تاب نہ لایا اور فوج نے بھی جی چھوڑ دیا۔ پیٹھ دکھائی، منہ موڑ دیا۔ پاؤں نہ جما، بھاگ نکلی۔ سلطان قاف کے لشکر میں شادیانوں کی نوبت آئی۔ فراریوں نے داد بیداد کی صدا فلک گراں گوش کو سنائی۔ بادشاہ بے تابانہ شاہزادے کے گرد پھرنے لگا، زر و جواہر نثار ہو کر زمین پر گرنے لگا۔ جتنے جرار نامدار تھے، دست و بازو کی طاقت پر حیران تھے، فن سپہ گری میں طفل دبستان تھے۔ سبحان اللہ یا صلی علی کا غل تھا۔ کشتوں کے لہو سے پوشاک پر افشاں تھی، نوشاہ کی شان اُس نوجوان کے چہرے سے عیاں تھی۔ جس جا لوہا برسا تھا، وہاں زر سرخ اور سفید برساتے بڑی شوکت اور شان سے خیمہ میں داخل ہوئے، دل کے مطلب حاصل ہوئے۔ اس لڑائی کا قصہ شہزادہ کی شجاعت کا مذکور پرستان کیا، دور دور پہنچا۔ سب حیران تھے کہ ایسے پری پیکر انسان نے دیو خصال کو سرِ میدان مار لیا۔ کوہ پیکر کو پرکاہ کی صورت خانۂ زین سے اتار لیا۔ فتح کی نذریں گذریں۔ جشن کی تیاری ہوئی۔ رزم سے فرصت پائی، بزم کی باری ہوئی۔ ایک ہفتہ اور وہاں مقام رہا۔ دن کو مقتولوں کو دفن کرنا، رات کو گانے اور ناچ کا اہتمام رہا۔ نویں روز بادشاہ مع شاہزادہ عالی جاہ شہر میں رونق افزا ہوا، جس قدر پرستان میں حسین اور نامی جوان تھے، شہزادہ کے دیکھنے کو سب کا مجمع ہوا۔ اس فقرے پر بیان کا اختتام ہے، داستان تمام ہے کہ اس بادشاہ کا بیٹے کے مرنے سے جی چھوٹا، ملک و مال سے ناامید ہوا۔ غم کا آسمان ٹوٹا، کہیں پاؤں نہ ٹکا۔ زمرد کوہ کی سیدھی راہ لی۔ شاہزادہ بافتح و ظفر پہرا شہر میں داخل ہو کے مقتول کی منگیتر دھوم دھام سے بیاہ لی۔ پھر اس کو ہمراہ لے کے وطن کی سمت روانہ ہوا، پرستان میں تمام قوم بنی جان میں یہ قصہ فسانہ ہوا، لیکن مشہور ہے کہ ؂

در پس ہر گریہ آخر خندہ ایست


معرکۂ رزم کے بعد بزم کی صحبت ضرور ہے۔ مؤلف کا لقب سرور ہے۔ اگر فلک کے ہاتھ سے فرصت پاتا ہوں تو قریب ان شاء اللہ تعالی سناتا ہوں۔ کہانی تمام ہوئی۔ جھوٹ کو سچ کر کے دکھا دے، یہی اس کا مزا ہوتا ہے۔ ورنہ قصے میں بکھیڑا ہے اور کیا ہوتا ہے۔

القصہ اعجاز شاہ کرامت کی راہ سے یہ کہانی سُنا چکے اور سمن رخ کے ہوش حواس بر جا آ چکے۔ صحت ہوئی، مزاج درست ہوا۔ سب باتوں کا بند و بست ہوا۔ ہوا خواہوں نے مبارک سلامت کا غوغا مچایا، مطلب دل کا بر آیا۔ آذر شاہ گوش برآواز تھا، اس کو اعتقاد کامل حاصل ہوا کہ سب شاہ صاحب کا اعجاز تھا۔ جواہر گراں بہا تحائف جا بجا کشتیوں میں چنا۔ شاہ صاحب کے روبرو دست بستہ لایا۔ تارک دنیا نے دستِ رد سینۂ قبول پر رکھ کے فرمایا: بابا مدتوں خواہش زر میں دربدر خاک چھانی، مرشد کی نصیحت نہ مانی۔ دن رات خرابیاں سامنے آئیں، دوڑ دوڑ کر ٹھوکریں کھائیں۔ کون سا رنج تھا جو اس کی تلاش میں نہ اٹھایا۔ مگر یہ ظالم کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ جس دن سے اس کو ذلیل و خوار جانا، سراسر پبکار جانا، یہ ڈھونڈھ کے پاس آتا ہے، فقیر منہ پھراتا ہے۔ اب معبود کے نام چھٹ سب چیز کا لینا حرام ہے۔ یہ بوجھ اٹھانا اہل دنیا کا کام ہے۔ جب یہ پاس آتا ہے، دونوں جہاں کو بُھلاتا ہے۔ اسی کے نشہ میں آدمی گونگے بہرے ہوتے ہیں، اسی کی نگہبانی کو درکار چور پہرے ہوتے ہیں۔ اس کا دوست خدا کا دشمن ہے، دین ایمان کا یہی رہزن ہے۔ جب شاہ صاحب نے اس درجہ انکار فرمایا، بادشاہ کا دونا اعتقاد بڑھا، بمِنّت یہ کلمہ لب پر لایا کہ وضع حمل تک آپ بہرکیف رونق افزا رہیں۔ دست شفقت اس کے سر پر پھیرنا ضرور ہے کہ حضور کی توجہ سے اس کا ظہور ہے۔ گود میں لے کے عمر طبعی کی خالق سے دعا کیجیے، بندِ تفکر سے ہم کو رہا کیجیے۔ بجبر شاہ جی نے یہ امر منظور کیا، بادشاہ کو مسرور کیا۔

کچھ دن نہ گذرے تھے کہ قابلہ نے عرض کی: قبلۂ عالم مبارک! قریب ثمر زندگانی زیب کنار ہوتا ہے، شاہزادی کو درد بے اختیار ہوتا ہے۔ شاہ صاحب نے فوراً کوری چینی منگا کے لکھی، گڑ پڑھ کر دیا کہ اس کو کھلا کے اُس کو سر پر رکھنا، داتا مشکل آسان کرے گا، سرور کا سامان کرے گا۔ بادشاہ نے وزیر اعظم سے ارشاد کیا: شہر کو آراستہ کرو، منادی فوراً ندا کرے کہ خوشی خلقِ خدا کرے، در دولت پر جشن عام ہوگا۔ چھوٹا بڑا اس شہر کا حسب لیاقت مورد انعام ہوگا۔ درِ خزانہ کھلا، فقیر غریب محتاج لینے لگے، دعائیں دینےلگے۔ پنڈت رمّال منجم جفردان جو جو شہر میں کامل تھے، حاضر ہو کے وقت ساعتِ نحس و سعد دیکھنے لگے۔ غرض کہ شرف آفتاب مشتری کی ساعت میں وہ قمر طلعت برج حمل سے نکلا، مبارک سلامت کی صدا زمین آسمان سے پیدا ہوئی۔ محل کی رنڈیوں کا مجمع ہوا۔ جس نے دیکھا،ہزار جان سے شیدا ہوئی۔ حضور شاہ میں نذریں گذرنے لگیں۔ طبل اسکندری پر چوب پڑی، شلک کی توپ پر بتی دی۔ شہر کی خلقت مطلع ہوئی۔ شور غل بڑے ہلّڑ کا ہوا کہ بادشاہ کے گھر میں لڑکا ہوا۔ ہیجڑے زنانے بھانڈ چونے والیاں درِ دولت پر حاضر ہوئیں۔ گانا ناچ ہونے لگا۔ سب انعام شاہی سے مالا مال ہوئے۔ شاخ امید ہر ایک کی گل و ثمر لائی، نہال ہوئی۔ ہزارہا گناہگار قید سے رہا ہوا، غنی محتاج و گدا ہوا۔ مسجد خانقاہ مہمان سرا کی تعمیریں ہوئیں۔ مشائخوں کے روزینے مقرر ہوئے۔ ملّانوں کی جاگیریں ہوئیں، برہمنوں کے سالیانے ٹھہرے۔ پنڈتوں کی توقیریں ہوئیں۔ حکم اقدس ہوا: لولے لنگڑے ، اندھے، ضعیف جو ہوں زر نقد ان کو ماہ بماہ دو۔ غریب غربا کی لڑکیاں بیاہ دو، شکستہ مسجدیں، ٹوٹے مقبرے جتنے تھے، از سر نو سب کی تیاری ہوئی۔ مسافر خانے اور مہمان سرا میں خیرات جاری ہوئی۔ کئی سال صیاد جانوروں کو تہِ دام نہ لا سکے، چڑیا کو نہ پھنسا سکے۔ دو دو کوس کے فاصلے سے پختہ کنویں سرِ راہ بنے۔ مکانات شاہی جو گر گئے تھے، وہ بھی خاطر خواہ بنے۔ کئی کوس کے عرض اور طول کا باغ بنا۔ اُس میں مکانات مرتفع عالی، شہزادے کی بود باش کو درست ہوئے۔ کاریگر مقرر، چالاک اور چست ہوئے۔ دو رویہ شہر میں ٹھاٹھر گَڑ گئی۔ تیل کی ریل پیل سے بندھن سڑ گئے۔ روشنی کو لاکھوں مزدور آیا۔ شبِ دیجور کو شہر سے بھگایا۔ ہر محلے میں تنور گڑے، کڑہاؤ چڑھے، کھانا اور مٹھائی ہندو مسلمان کے واسطے کہ کوئی اپنے اپنے گھر میں ہنڈیا نہ چڑھائے، پکا پکایا سرکار کی طرف سے پائے۔ چالیس دن یہ کیفیت رہی۔ چھٹی چلے کی رسم ہو گئی۔

وہ گوہر گرانمایہ آغوش دایہ میں پرورش پاتا تھا۔ ہر روز نمو کی بہار دکھاتا تھا۔ موافق معمول دودھ بڑھا، کھیر چٹائی، کھانے پینے کی نوبت آئی۔ جو دن گذرا، وہ مہینا تھا۔ ہر ماہ سال ہوا، نو دس برس میں بدر کامل وہ ہلال ہوا۔ بسم اللہ ہوئی، معلم ادیب خوشنویس پڑھانے لکھانے لگے۔ سِن تمیز میں گھوڑے پر چڑھا، تیر اندازی کی۔ لکڑی پھینکی، برچھا ہلانا سکھانے لگے۔ القصہ علم و فضل، کسب و ہنر میں کمال ہوا۔ خُلق و مروت، جود و سخا میں بے مثال ہوا۔ جرأت میں رستم کا یادگار، طاقت میں اسفند یار۔ جس دم سیر تماشے کو سوار ہوتا تھا، تمام شہر چال ڈھال پر نثار ہوتا تھا۔

شاہزادہ تو ماں باپ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پا کے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے، محرر خاموش ہو کے دُکان بڑھاتا ہے۔ اگر زیست باقی رہی اور کسی شائق نے خواہش کی تو اس کی جوانی کا زور شور، طبیعت کا لگاؤ، محبت کا بگاڑ بناؤ صفحۂ قرطاس پر قلمبند ہوگا۔ نوجوانوں کو سخن فہم قدر دانوں کو پسند ہوگا۔ ورنہ اللہ بس ہے، باقی ہوس ہے۔ اس واسطے کہ جینے پر مدار ہے، غور کیجیے تو وہ مستعار ہے۔ اس کا کیا اعتبار ہے۔ دیکھو تو ایسی زیست پر کس کس طرح سے لوگ مرتے ہیں، ٹیڑھے تار کی ٹوپی اگر بھولے سے سیدھی ہوئی تو کج کر کے سر پر دھرتے ہیں۔ باہم ہر دم کج مریز ہے، دوسرے کے قتل پر خنجر تیز ہے۔ یہ نہیں سمجھتے مالک اور ہے۔ جس دم وہ اپنی طاقت دکھاتا ہے، بگاڑ کر بناتا ہے۔ آگاہ بادشاہ اور فقیر ہے کہ یہ قول جناب امیر ہے: عرفتُ ربی بفسخِ العزائم، اس پر خباثت نفس سے نہیں چوکتے ہیں۔ ایک ساعت کی سیر کو دوسرے کا گھر پھونکتے ہیں۔ ایسی بے بنیادی پر نبائیں مستحکم بنانا مال کے حرص میں مآل بھول جانا۔ اگر قدرے مقدور ہوا، فوراً دماغ میں فتور ہوا۔ غفلت کا پردہ آنکھوں کے آگے پڑ گیا۔ کسی کو پہچانتے نہیں اور تو اور ہے، مقام غور ہے اپنی حقیقت آپ جانتے نہیں۔ اس زمانے میں اگر کوئی کسی کو خاک سے پاک کرے، عوض یہ ملے کہ جب اس کا قابو چلے اس کو تہِ خاک کرے۔ زندگی سی شے دنیا میں کھو کے کوچہ گرد مشہور ہو کے کیا کیا نہ ملا، کہاں کہاں کی خاک چھانی، کسی کی بات نہ مانی۔ اس پر آشنا نہ ملا۔ ظاہر میں تو قبلہ آئیے، کفش خانے میں قدم رنجہ فرمائیے، مقدمہ سب زبانی پایا، باطن میں دشمن جانی پایا۔ پہلے تو کیا کیا گرمجوشی دیکھی، سرِ دست سرفروشی دیکھی۔ خدانخواستہ نشیب و فراز زمانے سے حیلے میں کسی بہانے سے کچھ کڑی پڑ گئی، کل پرسوں کی نہیں برسوں کی بنی بنائی بات بگڑ گئی۔ بقسم کہتا ہوں جَو فروش گندم نُما بہت ہیں۔ بندہ کے زعم میں دوست کم دشمن خدا بہت ہیں۔ اس عصر میں نمک حرامی نے ایسا رواج پایا ہے یاروں کی زبان پر اس کا ذائقہ آیا ہے کہ گو سلطنت بگڑ جائے، بسا بسایا شہر اجڑ جائے زرد رو نہیں مُنہ کالا ہو، ایک کا نہیں جہاں کا سسرا سالا ہو۔ اس پر بھی جس ادھیڑ بن میں ہو، وہی کام کرے، نطفہ حرامی سے نہ چوکے، کنبے کو بدنام کرے، عالم اللہ کا مبتلا روز سیاہ کا ظلم و جور دیکھ کے نئے نئے طور دیکھ کے بریز بریز کرے، وہ عدوئے خدا قاتل آل مصطفےٰ ﷺ سِلّی نہ پائے تو گھر کی سل اٹھا لائے۔ نسلاً بعد نسل جو خنجر چلا آیا ہے، اس کو تیز کرے۔ اس مثل کو سارا جہان جانتا ہے، بوڑھا لڑکا نوجوان جانتا ہے کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا پاتا ہے۔ پانی میں جس نے ہگا، اس کے مُنہ پر آتا ہے لیکن شیطان نے فلاں کے ساتھ عقل بھی ماری ہے، گلی گلی ہر کوچے میں ذلت و خواری ہے ؂

سکتہ نہیں ہوتا اسے حیرت نہیں آتی

چکنا جو گھڑا ہے کبھی غیرت نہیں آتی


جو زشتیِ اعمال سے دنیا میں بدنام ہوا، مردود و موردِ لعن خاص و عام ہوا۔ احیاناً کسی اور نے کچھ بگاڑا، مگر اسی کا نام پکارا جائے۔ کوئی پادے بھٹیارے کا لونڈا مارا جائے۔ انسان کو لازم ہے کہ کون و فساد میں زیست برباد نہ کرے، دوست کو اپنے حال پر نہ رلائے، دشمن کو شاد نہ کرے۔ کاش بین بین میں بسر ہو تو بھی چین میں بسر ہو۔ سوچے تو دارا اور سکندر کیا ہوئے، کاؤس و کیقباد نہیں نام ان کا کسی کو یاد نہیں۔ خسرو کے گنج کدھر گئے۔ جام کیسا جم نہیں، یہ سب راہی ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد ہم نہیں، دنیا سرائے فنا ہے۔ ایک شب رات کا بسیرا ہے، بیکار خیمہ سراسر بار ڈیرا ہے۔ جس نے اس محیط بے کنار میں غوطہ لگایا، تِرا نہیں اور جس نے اس وادیِ پُر خار میں قدم رکھا، پھر انھیں حُب دنیا میں ہزار طرح کا خوف و خطر ہے۔ اس مرحلے میں جان کیسی، دین و ایمان کا ضرر ہے۔

ان دنوں کہ بار سَے بہتر سنہ ہجری (1272؁ھ) اور مہینہ شعبان کا ہے، مجمع پریشانیوں کے سامان کا ہے۔ یعنی سریر آرائے اریکۂ سلطنت حامل رنج و سفر غربت بعزم لندن ہے۔ شہر میں چھوٹا بڑا مبتلائے مصیبت تختہ مشق جور و محن ہے۔ اس گلزار ہمیشہ بہار میں بہمن و دے کا سامان ہے، ایسا آباد ملک سنسان سراسر ویران ہے۔ دیکھنے والوں کا دل و جگر خون ہوتا ہے، وحشت برستی ہے، جنون ہوتا ہے۔ جناب مولوی محمد یعقوب صاحب کی توجہ سے یہ قصہ یوسف جمال بحسن و خوبیِ کمال چاہِ غفلت سے بے اعانت دلو و رسن بصد جوبن نکل کے یا تو چِھپا تھا اب چَھپا۔ جب یہ زیر و زبر ہوا تب مدنظر ہوا، سب کو عزیز ہوا، عجب چیز ہوا۔ لہذا برادران ہم فن، گرگ باراں دیدہ رونق انجمن جو جو ہیں، ان سے یہ سوال ہے کہ مصنف کی مشقت اور مولوی صاحب کی محنت غور کر کے بنظر اصلاح ملاحظہ ہو تو عین عنایت احسان کمال ہے۔ جس جگہ سہو یا غلطی مقتضائے بشری سے پائیں، بے تکلف اس کو بگاڑ کے بنائیں اور جہاں سے کچھ مزا ملے، کچھ لطف اٹھے، فقرے چُست خاطر خواہ ہوں تو دعائے خیر سے یاد دونوں پُر گناہ ہوں۔ اس قصے کا کہنے والا لکھنؤ کا رہنے والا ناظم نہیں، نثّار نہیں، گو ٹکسال باہر نہیں مگر اس فن سے ماہر نہیں کامل العیار نہیں؛ لیکن جناب مولوی محمد یعقوب صاحب وحید عصر جوانِ صالح گوشہ نشین مرد قانع عزلت گزیں اکل حلال پر ان کی ہمت مصروف بخدا یہ بندہ بہمہ صفت موصوف ہے۔ اسم ایسا فعل ایسے شگرف کرتے ہیں، اسی نحو سے اوقات صرف کرتے ہیں۔ بسکہ فقیر کے حال پر نظر عنایت بمرتبۂ کمال ہے، رطب و یابس جو کچھ کہا ہے اس کے چھاپنے کا خیال ہے۔ یہ اوراق پریشان جو پسند آئے، باہتمام تمام چھپوائے۔

فقط۔


تــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــمــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت