شگفتہ ہوتے ہی مرجھا گئی کلی افسوس
شگفتہ ہوتے ہی مرجھا گئی کلی افسوس
بہار باغ ادھر آئی ادھر گئی افسوس
کہ تم اخیر بھی کہنے نہ حال دل پائے
زبان بند ہوئی بات کرتے ہی افسوس
اسی بہانے سے منہ دیکھتے حسینوں کا
صفائے دل نہ ہوئی اپنی آرسی افسوس
حضور قیس پہن کر جنوں میں کیا جائیں
قباے تن ہے سراپا نچی کھچی افسوس
وبال دوش رہا سر بھی ناتوانی سے
ملا نہ کوئی ہمیں تیغ کا دھنی افسوس
نظر سے گر کے یہ دل غم ہوا کہیں نہ ملا
جنوں میں خاک بھی چھانی گلی گلی افسوس
وہ کشتنی ہیں جو ماہی کا بھیس بھی بدلا
حلال ہو گئے مچھلی سے بھی چھری افسوس
مزار قیس پہ آئی نہ ایک لیلہ کیا
کسی نے بات نہ پوچھی غریب کی افسوس
برہنگی کا تو مرنے پہ غم نہیں لیکن
کفن کھسوٹ سے شرمندگی ہوئی افسوس
خزاں کے ہاتھ سے رونے کی جا ہے خندۂ گل
بسورتی ہے یہ ہنستی نہیں کلی افسوس
کسے سنائیں یہ ہم ریختہ زباں اے شادؔ
جناب میرؔ نہ مرزاؔ نہ مصحفیؔ افسوس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |