شروع اہل محبت کے امتحان ہوئے
شروع اہل محبت کے امتحان ہوئے
اب ان کو ناز ہوا ہے کہ ہم جوان ہوئے
سبھوں کی آ گئی پیری جو تم جوان ہوئے
زمیں کا دل ہوا مٹی خم آسمان ہوئے
غضب سے کم نہیں ہوتا وفور رحمت بھی
میں ڈر گیا وہ زیادہ جو مہربان ہوئے
ارے ذرا مرے دل سے یہ کوئی پوچھ آئے
اسی طرح وہ خفا ہیں کہ مہربان ہوئے
کھلا نیا کوئی گل دور دور پہنچی بو
نہ کیوں جہاں میں ہو شہرت کہ وہ جوان ہوئے
دل و جگر کی جگہ داغ تک نہیں باقی
جو نامدار پڑے تھے وہ بے نشان ہوئے
دل و جگر میں نہیں جان تن کا ذکر ہے کیا
ہمارے مرنے سے خالی کئی مکان ہوئے
گزشتگاں کے جو قصے بیان کرتے تھے
اب ان کے ذکر بھی کانوں کو داستان ہوئے
عوض نماز جنازہ کے میرے لاشے پر
تمام قصۂ مہر و وفا بیان ہوئے
گیا دل اس کا وہ آ بیٹھے جس کے پہلو میں
بس اس کی جان گئی جس پہ مہرباں ہوئے
وہ قتل کرتے مگر رحم آ گیا ہے رشیدؔ
یہ میرے نالے مرے واسطے امان ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |