شراب ناب کا قطرہ جو ساغر سے نکل جائے
شراب ناب کا قطرہ جو ساغر سے نکل جائے
تڑپ کے دل مرا قابوئے دلبر سے نکل جائے
خوشی میں کہہ رہا ہوں آمد آمد ہے جو اس گل کی
کوئی کہہ دے کہ ویرانی مرے گھر سے نکل جائے
ستاتے ہیں رقیب آ آ کے میں گو چھپ کے بیٹھا ہوں
عجب یہ ظلم ہے کوئی کدھر گھر سے نکل جائے
اگر سن لے کہ تیرے سخت جاں کی باری آ پہنچی
سمٹ کر آب خنجر چشم جوہر سے نکل جائے
نکالو روز گھر سے ڈر نہیں لیکن یہ ہے دھڑکا
کہ میرا نام ہی اک دن نہ دفتر سے نکل جائے
گھٹا کے میں نے اپنا شوق دل لکھا ہے جاناں کو
کہ اڑنے میں نہ خط آگے کبوتر سے نکل جائے
نہ جانے کی کرو جلدی کہ قصہ ختم ہوتا ہے
ٹھہر جاؤ ذرا دم جسم لاغر سے نکل جائے
قفس میں دام میں میرے پھڑکنے کا یہ باعث ہے
ہوا پرواز کرنے کی مرے پر سے نکل جائے
اجازت ابر کو در پر ٹھہرنے کی نہیں دیتے
بس اتنا حکم ہے آ کے فقط برسے نکل جائے
رشیدؔ سوختہ دل سر پٹکنے پر ہے آمادہ
کہو ہر اک شرر سے جلد پتھر سے نکل جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |