شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں
Appearance
شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں
ہجوم آرزو ہے اور میں ہوں
دل بیگانہ خو ہے اور میں ہوں
بغل میں اک عدو ہے اور میں ہوں
مٹاتا ہی رہا جس کو مقدر
وہ میری آرزو ہے اور میں ہوں
پریشاں خاطری کہتی ہے اپنی
کسی کی جستجو ہے اور میں ہوں
شب تنہائی فرقت میں دل سے
کچھ اس کی گفتگو ہے اور میں ہوں
گلستاں جہاں ہے قابل سیر
طلسم رنگ و بو ہے اور میں ہوں
نگاہ لطف دلبر کا ہے اظہار
پھٹے دل کا رفو ہے اور میں ہوں
کہیں چھوڑا اگر قاتل کا دامن
تو پھر میرا لہو ہے اور میں ہوں
جلالؔ اس کو بنایا اس نے دشمن
قیامت میں عدو ہے اور میں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |