Jump to content

شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے

From Wikisource
شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے
by انشاء اللہ خان انشا
294583شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنےانشاء اللہ خان انشا

شب خواب میں دیکھا تھا مجنوں کو کہیں اپنے
دل سے جو کراہ اٹھی لیلیٰ کو لیا تپ نے

دیکھے ترے جلوہ کو بامہن کی جو بیٹی بھی
منہ سے وہیں کلمہ کو یکبار لگے جپنے

ہے جنس پری سا کچھ آدم تو نہیں اصلاً
اک آگ لگا دی ہے اس امرد خوش گپ نے

اس طرح کے ملنے میں کیا لطف رہا باقی
ہم اس سے لگے رکنے وہ ہم سے لگا چھپنے

ہنگام سخن سنجی آتش کی زبانی کو
شرمندہ کیا اے دل اس شوخ کے گپ شپ نے

ہر امر میں دنیا کے موجود جدھر دیکھو
آدم کو کیا حیراں شیطان کی لپ جھپ نے

گرمی سے مرے دل کی اس موسم سرما میں
یہ گنبد گردوں بھی یکبار لگا تپنے

رہ وادیٔ ایمن کی لیتا ہوں کہ گھبرایا
اس دل کی بدولت یاں مجھ کو طرف چپ نے

ہے ہم سے بھی ہو سکتا جو کچھ نہ کیا ہوگا
مجنوں سے جفا کش نے فرہاد سے سر کھپ نے

چل ہٹ بھی پرے بجلی دل بادلوں کو لے کر
دہلا ہے دیا تیری تلواروں کی شپ شپ نے

کب تک نہ کراہوں میں نالہ نہ بھروں کیوں کر
میں کیا کروں اے انشاؔ اب جی ہی لگا کھپنے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.