شاہی سیر کشمیر/اورنگ زیب عالمگیر اور جنتِ کشمیر
سیر کشمیر کا شوق عالمگیر کے لیے جَدّی ورثہ تھا۔ اکبر، جہانگیر، شاہجہاں ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی کئی دفعہ کشمیر کی سیر سے محظوظ ہو چکے۔ عالمگیر بھی برسوں سے کشمیر کو جنت نظیر سن رہا تھا۔ آخر ششم سال جلوس ١٠٧٣ھ میں رمضان کے مہینہ میں کہ پچیسویں تاریخ تھی، قلعہ لاہور سے سفر کشمیر کے لیے باہر نکلا۔
اہل حرم کی کئی پالکیاں ساتھ تھیں۔ ہاتھی، گھوڑے، فوج، لشکر کا انبوہ کثیر تھا۔ شان و شوکت اور جاہ جلال کے ساتھ رستے کے نشیب و فراز کی تکالیف اٹھاتا، بعض دلکش مقامات کی سیر کرتا اور کئی کئی دن وہاں ٹھہرتا ذیقعدہ کے مہینہ میں سری نگر پہنچ گیا۔ اس سفر میں کئی جانور اور کئی آدمی پہاڑی دشوار گزار راہوں کی نذر ہو کر غاروں میں گرتے رہے۔ ایک فیل کوہ پیکر بھی پہاڑ کے ڈھلوان سے قلابازیاں کھاتا اپنی لپیٹ میں بہت سے لشکروں اور کئی کنیزوں کو لے کر چاہ عدم میں جا پہنچا۔
کشمیر میں عالگیر کا ایک نہایت معتبر افسر راجا رگناتھ متصدی مہمات دیوانی کے عہدہ پر تھا۔ وہ بادشاہ کی موجودگی ہی میں انتقال کر گیا۔ بادشاہ نے اس کے مرنے کا بڑا غم کیا اور وزارت کا منصب جلیل القدر فاضل خاں میر سامان کو عنایت کیا جو عالمگیر کے آخری عہد حکومت میں کشمیر کا گورنر بھی ہو گیا۔
شاہجہاں کے زمانہ سے اُناسی ہزار روپیہ بوساطت صدر الصدور ارباب استحقاق کو بلا تمیز مذہب و ملت ملتا تھا اور مہینوں کے حساب سے اس کی تقسیم اس طرح ہوتی تھی: محرم اور ربیع الاول میں بارہ بارہ ہزار روپیہ، رجب میں دس ہزار روپیہ، شعبان میں پندرہ ہزار روپیہ، رمضان میں بیس ہزار روپیہ، باقی سات مہینے خالی رہتے تھے۔ عالمگیر نے حکم دیا کہ اس خیرات کے علاوہ باقی سات مہینوں میں دس دس ہزار روپیہ فی ماہ کے حساب سے خیرات دی جایا کرے۔ غرض سالانہ خیرات کی رقم جو اناسی ہزار تھی، اب ایک لاکھ انچاس ہزار تک کر دی گئی۔
“بادشاہ نامہ عالمگیری” نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ یہ خیرات سارے ہندوستان کے لیے تھی یا صرف کشمیر کے لیے، لیکن اس کا ذکر چونکہ کشمیر کے حالات میں ہے اس لیے خیال ہے کہ اس خیرات کا تعلق کشمیر ہی سے ہے۔
١٧؍ ذیقعدہ کو بادشاہ کی عمر کا سینتالیسواں سال شروع ہوا۔ جشن قمری میں کئی مستحقین کو انعام و اکرام ملے۔ اسی جگہ بادشاہ کو اپنے وزیر اعظم فاضل خاں کے متعلق جس کی عمر ستر سال کی تھی، اطلاع ملی کہ وہ یگانہ روزگار جامع العلوم ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ لاہور میں اُس نے اپنا مقبرہ بنوایا تھا، وہیں دفن ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ کو اس کے مرنے کا بہت سخت صدمہ ہوا۔ یہاں تک کہ عید الاضحیٰ کا دربار اور تمام مراسم ملتوی کر دیے گئے۔ فاضل خاں کا بھتیجا بادشاہ کے پاس آیا۔ اس کو تسلی و تشفی دینے کے بعد خلعت و منصب عطا کیا گیا۔
بادشاہ نے ڈل کی سیر کی۔ ڈل کے دونوں طرف چراغاں کیا گیا۔ عجب کیفیت تھی۔ یہاں سے ویری ناگ کے چشمہ پر گیا جہاں اس کے باپ (شاہجہاں) اور دادا (جہانگیر) نے دلنشیں اور خوبصورت عمارتیں تعمیر کرائی تھیں اور افسوس ہے آج جن میں سے بہت سی مٹ چکی ہیں اور بہت سی کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں۔ صرف چشمہ کے گرد جو چاروں طرف عمارت ہے وہ موجود ہے گو اس کی حالت بھی ابتر ہے۔ پان پور میں زعفران زار کو دیکھا لیکن کچھ رستے کی تکلیفات، آدمیوں اور جانوروں کے اتلاف، اور وزیر اور دیوان کی موت کی وجہ سے بادشاہ کا غنچۂ خاظر چمنستانِ کشمیر میں ناشگفتہ ہی رہا۔بلکہ فرمایا کہ ضروری امورات ملکی کے بغیر یہاں صرف سیر و شکار کے لیے بادشاہوں کا آنا رائے صائب کے خلاف ہے۔ آخر بادشاہ تین ماہ کے قیام کے بعد 7 صفر کو لاہور واپس چلا آیا۔