Jump to content

شامت الیکشن

From Wikisource
شامت الیکشن
by ظریف لکھنوی
319693شامت الیکشنظریف لکھنوی

واہ بی میونسپلٹی جان کیا کہنا ترا
تو چچی لیلیٰ کی عاشق تیرا مجنوں کا چچا
اپنی خودداری کو کھو کر تجھ پہ جو شیدا ہوا
بے خودی میں یہ زبان حال سے کہتے سنا
بسکہ دیوانہ شدم عقل رسا درکار نیست
عاشق میونسپلٹی راحیا درکار نیست
تیرا خواہش مند ہر قید لیاقت سے بری
جس کا جی چاہے لڑے اور لڑ کے لے لے ممبری
عہد آزادی نے ایسی ڈال دی ہے ابتری
اب تو ہر تانیث اور تذکیر میں ہے ہمسری
تجھ کو کیا رنڈی ہے کوئی یا کہ رنڈی باز ہے
تیرا دروازہ کس و ناکس کے اوپر باز ہے
جمع کر دے قرض ہی لے کر ضمانت کے پچاس
دور ہوتی جائے غیرت جب الیکشن آئے پاس
ووٹروں کے ہاتھ جوڑے خوب ہو کر بد حواس
گڑگڑا کر ہر کس و ناکس سے ہو یہ التماس
رہن پرچے کے عوض عزت مری کر لیجیے
اپنے بچوں کا تصدق ووٹ مجھ کو دیجیے
سنیے اک صاحب کا قصہ جب ہوئی شامت سوار
یہ ضمانت کر کے داخل بن گئے امیدوار
چھوڑ پیشہ ترک فرمایا جو کچھ تھا کاروبار
کچھ اثاث البیت بیچا کچھ لیا سودی ادھار
مضطرب رہتے تھے یہ نام آوری کے واسطے
گھر سے نکلے ووٹ لینے ممبری کے واسطے
سب سے پہلے ان کو جس ووٹر کے گھر جانا پڑا
شیخ بدھو نام تھا اور تھا جلاہا قوم کا
دھوتی باندھے مرزئی پہنے تنا بیٹھا ہوا
اک سڑی مٹی کا حقہ پی رہا تھا کج ادا
جاتے ہی تسلیم کی جب اس کو با صد احترام
منہ کو ٹیڑھا کر کے بولا کو ہے بالیکم سلام
بولے یہ پہلے نہ آیا میں ہوا اتنا قصور
شیخ بدھو آپ مجھ پر رحم فرمائیں حضور
آپ کو والد کہا کرتے تھے بھائی اب سے دور
میں بھتیجا آپ کا ہوں ووٹ لے لونگا ضرور
بولے بدھو کا کہیو ہم کہکا کہکا بوٹ دےای
بوٹ پہیے او جو ترتے ہمکا دس کا نوٹ دےای
جب سرتے دار بولا لائے ہو کونو گواہ
ہم کہا سسرا جمادروا کہس ہم کا تباہ
ہم جلاہا آپ کے اور آپ ٹھہرے بادشاہ
کون کہہ کے سامنے موتت ہے صاحب واہ واہ
ہنس کے کہہ دینیں مجھڑ سیکھ جی جاؤ بری
رہ گئی منہ ہائے کے سب لمبرن کی لمبری
سن لیو ساری کتھا دیہو کہ ناہیں یہ بتاؤ
بوٹ مانگے آئے ہو ہم سے تو ہم کا کچھ دلاؤ
کر چکن بکواس اب بھیا نہ ہمرا موڑ کھاؤ
کہہ دیا بس کہہ دیا اب جاؤ چپے گھر کا جاؤ
جو رکم تم سے کہا سب پیشگی لے لیب ہم
بوٹ دے موٹر پہ لے جہیو تو ہاں دے ویب ہم
جب میاں بدھو کے تیور اس قدر دیکھے کڑے
دہنے بائیں دیکھ جھٹ قدموں پہ اس کے گر پڑے
دل میں پچھتائے کہ آخر کیوں ہوئے تھے ہم کھڑے
کہیے ایسے جاہلوں سے کیا کوئی کشتی لڑے
آبرو کے ساتھ دے کر پانچ راضی کر لیا
کامیابی پر ہوئے خوش تاؤ مونچھوں پر دیا
آگے بڑھ کر ایک حضرت کا ہوا پھر سامنا
ان سے جا کر اس طرح کی عرض با صد التجا
بندہ پرور ایک مذہب ہے ہمارا آپ کا
ووٹ دیجے گا جو مجھ کو آپ خوش ہوگا خدا
ہیں مرے حلقے میں جو جو میرے مذہب کے خلاف
دیکھیے ممبر ذرا ہو لوں تو کر دوں سب کو صاف
مہتران کے در پہ جھاڑو دینے آئے کیا مجال
اور سقا مشک سے نالی دھلائے کیا مجال
ٹیکس گھر وارے کا ان پر بندھ نا جائے کیا مجال
لے لیں بمبا گھر میں بے میٹر لگائے کیا مجال
ناچ تگنی کا انہیں اب میں نچاؤں گا حضور
دیکھے کس کس طرح ان کو ستاؤں گا حضور
خوش ہوئے سن کر جناب مولوئی مکتبی
ہاتھ پھیرا ریش پر اور اس طرح تقریر کی
آپ اس کے اہل ہیں میری نظر میں واقعی
ذات سامی کو سمجھتا ہوں میں فخر ممبری
محترم میں وعدہ قبل از وقت کر سکتا نہیں
فرض ہے ایفائے وعدہ پھر مکر سکتا نہیں
اس میں اک اشکال شرعی اور بھی ہے کیا کہوں
میں اعانت آپ کی بالفرض قرطاساً کروں
رائے تو اپنی ہبہ کر دوں عوض کچھ بھی نہ لوں
کیوں بدل ضائع کروں کس واسطے مسرف بنوں
جانتا ہوں یہ کہ میری رائے ہے کتنی وقیع
مفت ضائع کیوں کروں جب میں نہیں ہو مستطیع
حسب خواہش گر بدل مجھ کو عطا کر دیں جناب
کیا عجب پیش خدا ماجور بھی ہوں اور مثاب
میں نے دکھلا دی حدود شرع میں راہ ثواب
میرے معروضات کو فرمائیے گر مستجاب
رائے دے دینے میں احقر کو تامل کچھ نہ ہو
خود کروں تعجیل حتماً پھر تساہل کچھ نہ ہو
رائے دے دوں گا عوض میں آپ کو خمسین کے
اتنے ہی ملتے ہیں مجھ کو وعظ کے تلقین کے
حضرت والا تو خود پابند ہیں آئین کے
اس سے کم دینا مرادف ہے مری توہین کے
ہاں یہ ممکن ہے کہ کچھ تقلیل فرما دیجئے
ہے یہ کار خیر اب تعجیل فرما دیجئے
خلص احباب سے کیوں استشارہ کیجئے
راز پوشیدہ رہے کیوں آشکارہ کیجئے
سب سے اچھا ہے ذرا زحمت گوارا کیجئے
لیجئے تسبیح مجھ سے استخارہ کیجئے
عرض کی ہے میں نے جو اتنی رقم پر دیکھیے
منع جب آئے تو پھر کچھ اس سے کم پر دیکھیے
یہ نہایت کائیں تھے دل میں یہ بولے سوچ کے
شکل تو اچھی ہے پر زیبا نہیں میرے لیے
استخارہ میں کروں کیا آپ کے ہوتے ہوئے
کرتا ہوں نیت تو میں آپ استخارہ کیجیے
نیت ان کے دل میں تھی تسبیح ان کے ہاتھ میں
چوہا اپنی گھات میں تھا بلی اپنی گھات میں
منع آیہ استخارہ چھوٹتے ہی پہلی بار
مولوی صاحب کے چہرے پر ہوا کچھ انتر جار
پھر جو دیکھا واجب آیہ ہو بے اختیار
پوچھا نیت کس قدر پر کی تھی بہر خاکسار
بولے نیت دس پہ کی تھی لیجیے بندہ نواز
کامیابی کی دعا فرمائیے بعد از نماز
اس جگہ سے اٹھ کے گھر پر ایک صاحب کے لیے
دس برس ناکام رہنے پر ہوئے تھے جو بی اے
ریلوے میں تھے ملازم خود بھی تھے چلتے ہوئے
آپ کی تنخواہ تو کم ٹھاٹھ تھے لیکن بڑے
انگلش اسٹائل پہ رہنے کا جو ان کو شوق تھا
بوٹ بیٹری پاؤں کی کالر گلے کا طوق تھا
پھوس کے چھپر میں رہتے تھے یہ اس سامان سے
اور فرنیچر تو خارج ان کے تھا امکان سے
ٹوٹی پھوٹی کرسیاں لے کر کسی دوکان سے
بیٹھتے تھے ان پہ چھپر میں نہایت شان ثے
نام اک تختی پہ لکھ رکھا تھا یوں بہر وقار
مسٹر ابراہام بی اے ٹی ٹی سی ای آئی آر
دیکھ کر صورت کو ان کی اس طرح کہنے لگے
آئی ایم ویری بزی میک ہیسٹ جلدی بولئے
پھر ادھر ٹہلے ادھر ٹہلے گھڑی کو دیکھ کر
اپنے کتے سے کہا کم سون ان سے گو اوے
پھر کہاں یو آر کنڈیڈیٹ بٹ نو بولڈ مین
تم کو اپنی ووٹ کیسے دے گا صاحب اولڈ مین
چونکہ کنڈیڈیٹ انگریزی سمجھتے ہی نہ تھے
گڑگڑا کر اس طرح صاحب ثے فرمانے لگے
یہ تو ممکن ہی نہیں ہے آپ پیدل جائیے
میں نے موٹر مانگ لی ہے آپ ہی کے واسطے
اور کیوں کر اس طرح چلیے گا مجھ کو دینے ووٹ
کیجے پاکٹ بک پہ تاریخ الیکشن جلد نوٹ
بات انگریزی نما اردو میں یوں صاحب نے کی
ہم کہا انگلش میں ٹم سمجھا نہیں او آئی سی
دیکھو اپنی ووٹ رکھنی مانگٹا ہے ہم فری
کس کو دے گا پہلے بٹلانے نہیں سکٹا کوئی
ہم سٹی فادر نہیں تم کو بنانا مانگٹا
ڈی ایم پھر موٹر پہ ہم کاہے کو جانا مانگٹا
ہو کے جب مایوس یہ پلٹے وہاں سے منہ بنائے
دل میں کہتے تھے کہ ان کا ووٹ تو جانا ہے ہائے
سال بھر پہلے بڑے دن میں جو ڈالی دے تو پائے
اب بجز اس کے کوئی صورت نہیں بنتی بنائے
فیس دے کر نرس اک بہر سفارش لاؤں گا
چل گیا چکمہ تو ان سے ووٹ پھر لے جاؤں گا
پھر بڑھے آگے یہاں سے ووٹ کے ارمان میں
گھس پڑے یہ ایک بز قصاب کی دوکان میں
نثر میں پڑھ کر قصیدہ پہلے اس کی شان میں
چاہتے تھے یہ کہیں کچھ شیخ جی کے کان میں
یوں کنوتی کو بدل کر شیخ صاحب نے کہا
سنیے حجرت ہم لگی لپٹی نہیں رکھتے جرا
چودھری نے کل کہا تھا ہم سے اے بھیا سکور
سیکھ منے جس کو کہہ دیں بوٹ دے دینا جرور
پر مناہی کر گئے جب مولبی عبدل گفور
راپھجی کو بوٹ دے سکتے نہیں ہم تو حجور
سنتے ہیں کران میں فرما گئے تھے کھد رسول
دین کی جب بات ٹھہری دکھل دینا بے پھجول
واں کتب الدین بھی کہتے تھے سچی ہے یہ بات
گیر مجھب والے کو لمبر بنانا باہیات
سیکھ جی مجھب تمہارا اور ان کی اور جات
ہو کے لمبر وہ کھدا جانے کریں کیا واردات
ہاں کوئی مجھب کا اپنے ہو تو اس کو بوٹ دو
جب تمہیں موکا ملے ایسوں کو بھیا چوٹ دو
ان کو بز قصاب نے جب دے دیا روکھا جواب
یہ اٹھے دوکان سے مایوس با چشم پر آب
اپنے ورکر سے کہا جا کر کہ سنیے تو جناب
آپ ہی تدبیر اب کچھ کیجیے اس کی شتاب
صرف کی پروا نہیں جو ہو مناسب کیجیے
شیخ جی کے ووٹ کو لیکن نہ جانے دیجیے
دل میں ورکر خوش ہوئے کہنے لگے باصد سرور
اس طرف سے آپ بالکل مطمئن رہیے حضور
اور لوگوں سے زیادہ صرف تو ہوگا ضرور
تو سہی جب آپ ہی کو ووٹ دیں عبدالشکور
پیر لوٹن شاہ کی خدمت میں جاتا ہوں ابھی
حکم ان کا شیخ جی کے پاس لاتا ہوں ابھی
پیر لوٹن شاہ تھے اک خاندانی تکیہ دار
آنکھ میں سرمہ کئی رتی گلے میں چند ہار
ریش اقدس پان کے دھبوں سے رشک لالہ زار
گیروا کرتا گلے میں ہاتھ میں اک پشت خار
زرد تہمد پاؤں میں لکڑی کی اونچی سی کھڑاؤں
گھومتے پھرتے تھے یونہی شہر شہر اور گاؤں گاؤں
پہنچے ورکر ان کی خدمت میں بہ تعجیل تمام
دو روپے نذرانے کے دے کر کیا جھک کر سلام
عرض کی ہیں آپ تو حاجت روائے خاص و عام
شیخ جی کا ووٹ دلوا دیجئے بس ہے یہ کام
چونکہ حضرت کی ہیں بیعت میں میاں عبدالشکور
آپ فرما دیں اگر تو ووٹ دے دیں گے ضرور
آپ کی دعوت کا کل گھر پر کروں گا انتظام
شیخ جی کو بھی بلا لوں گا وہیں پر وقت شام
تذکرے میں ووٹ کا چھیڑوں گا مابین طعام
آپ ان کو حکم دے دیں گے تو ہو جائے گا کام
بولے لوٹن شاہ بابا خوش رہو دعوت قبول
ہم فقیروں کی دعا سے ہوگا سب مطلب حصول
مختصر سے ابتدائی واقعے جو کچھ لکھے
کیا عجب کافی ہوں یہ پبلک کی عبرت کے لیے
اس طرح کے ووٹر اور ممبر ہوں جب اس قسم کے
کہیے اس میونسپلٹی سے کسے راحت ملے
ساکنان شہر اب ہشیار ہونا چاہیئے
ممبر اور ووٹر کا کچھ معیار ہونا چاہیئے
ختم بھی کر دو ظریفؔ اب تم بیان ممبری
تا بہ کے آخر رہوگے قصہ خوان ممبری
خواب سے چونکیں ذرا جب سر گران ممبری
پھر سنا دینا انہیں تم داستان ممبری
اب سمند فکر کی باگ اور جانب موڑ دو
سونے والے سو گئے قصہ ادھورا چھوڑ دو


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.