سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
Appearance
سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
تس پہ یہ جان بہ لب آمدہ بھی محزوں ہے
اس سے آنکھوں کو ملا جی میں رہے کیوں کر تاب
چشم اعجاز مژہ سحر نگہ افسوں ہے
آہ یہ رسم وفا ہووے بر افتاد کہیں
اس ستم پر بھی مرا دل اسی کا ممنوں ہے
کبھو اس دشت سے اٹھتا ہے جو ایک ابر تنک
گرد نمناک پریشاں شدۂ مجنوں ہے
کیونکے بے بادہ لب جو پہ چمن میں رہیے
عکس گل آب میں تکلیف مئے گلگوں ہے
پار بھی ہو نہ کلیجے کے تو پھر کیا بلبل
مصرع نالہ جگر کاوی ہے گو موزوں ہے
شہر کتنا جو کوئی ان میں سرشک افشاں ہو
رو کش گریۂ غم حوصلۂ ہاموں ہے
خون ہر یک رقم شوق سے ٹپکے تھا ولے
وہ نہ سمجھا کہ مرے نامے کا کیا مضموں ہے
میرؔ کی بات پہ ہر وقت یہ جھنجھلایا نہ کر
سڑی ہے خبطی ہے وہ شیفتہ ہے مجنوں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |