سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں
سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں
سفینہ جس کا ہے طوفاں وہ ناخدا ہوں میں
خود اپنے جلوۂ ہستی کا مبتلا ہوں میں
نہ مدعی ہوں کسی کا نہ مدعا ہوں میں
کچھ آگے عالم ہستی سے گونجتا ہوں میں
کہ دل سے ٹوٹے ہوئے ساز کی صدا ہوں میں
پڑا ہوا ہوں جہاں جس طرح پڑا ہوں میں
جو تیرے در سے نہ اٹھے وہ نقش پا ہوں میں
جہان عشق میں گو پیکر وفا ہوں میں
تری نگاہ میں جب کچھ نہیں تو کیا ہوں میں
تجلیات کی تصویر کھینچ کر دل میں
تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں
جنون عشق کی نیرنگیاں ارے توبہ
کبھی خدا ہوں کبھی بندۂ خدا ہوں میں
بدلتی رہتی ہے دنیا مرے خیالوں کی
کبھی ملا ہوں کبھی یار سے جدا ہوں میں
حیات و موت کے جلوے ہیں میری ہستی میں
تغیرات دوعالم کا آئنا ہوں میں
تری عطا کے تصدق ترے کرم کے نثار
کہ اب تو اپنی نظر میں بھی دوسرا ہوں میں
بقا کی فکر نہ اندیشۂ فنا مجھ کو
تعینات کی حد سے گزر گیا ہوں میں
مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے
تو آئنہ ہے مرا تیرا آئینا ہوں میں
میں مٹ گیا ہوں تو پھر کس کا نام ہے بیدمؔ
وہ مل گئے ہیں تو پھر کس کو ڈھونڈھتا ہوں میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |