Jump to content

سگریٹ اور فاؤنٹین پن

From Wikisource
سگریٹ اور فاؤنٹین پن (1956)
by سعادت حسن منٹو
325046سگریٹ اور فاؤنٹین پن1956سعادت حسن منٹو

’’میرا پارکر ففٹی ون کا قلم کہاں گیا؟‘‘

’’جانے میری بلا۔۔۔‘‘

’’میں نے صبح دیکھا کہ تم اس سے کسی کو خط لکھ رہی تھیں، اب انکار کر رہی ہو۔‘‘

’’میں نے خط لکھا تھا مگر اب مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں غارت ہوگیا۔‘‘

’’یہاں تو آئے دن کوئی نہ کوئی چیز غارت ہو تی ہی رہتی ہے، مینٹل پیس پر آج سے دس روز ہوئے میں نے اپنی گھڑی رکھی صرف اس لیے کہ میری کلائی پر چند پھنسیاں نکل آئی تھیں، دوسرے دن دیکھا وہ غائب تھی۔‘‘

’’کیا میں نے چرا لی تھی؟‘‘

’’میں نے یہ کب کہا، سوال تو یہ ہے کہ وہ گئی کہاں۔۔۔ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں نے یہ گھڑی وہیں رکھی تھی،اس کے ساتھ ہی دس روپے آٹھ آنے تھے، وہ تو رہے لیکن گھڑی جس کی قیمت دو سو پچھتر روپے تھی وہ غائب ہوگئی۔ تم پر میں نے چوری کا الزام کب لگایا؟‘‘

’’ایک گھڑی آپ کی پہلے بھی گم ہوگئی تھی۔‘‘

’’ہاں۔۔۔‘‘

’’میں تو یہ کہتی ہوں کہ آپ نے خود انھیں بیچ کھایا ہے۔‘‘

’’بیگم تم ایسی بے ہودہ باتیں نہ کیا کرو ،مجھے وہ دونوں گھڑیاں بہت عزیز تھیں۔ اس کے علاوہ ان کو بیچنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا تم جانتی ہو کہ میری آمدنی اللہ کے فضل سے کافی ہے، بینک میں اس وقت میرے دس ہزار سے کچھ اوپر روپے جمع ہیں، گھڑیاں بیچنے کی ضرورت مجھے کیسے پیش آسکتی تھی۔‘‘

’’کسی دوست کو دے دی ہوگی‘‘

’’کیوں، کیامجھے ان کی ضرورت نہیں تھی؟ میں تو گھڑی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایسا چھکڑا ہوں جس میں کوئی پہیہ نہیں، وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا گھر میں کلاک ہے مگر وہ تمہاری طرح نازک مزاج ہے ذرا موسم بدلے تو جناب بند ہو جاتے ہیں پھر جب موسم ان کے مزاج کے موافق ہو تو چلنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

’’یعنی میں کلاک ہوں۔ ‘‘

’’میں نے صرف تشبیہ کے طور پر کہا تھا۔ کلاک تو بہت کام کی چیز ہے ‘‘

’’ اور میں کسی کام کی چیز نہیں۔ شرم نہیں آتی آپ کو ایسی باتیں کرتے۔‘‘

’’میں نے تو صرف مذاق کے طور پر یہ کہہ دیا تھا، تم خواہ مخواہ ناراض ہوگئی ہو۔‘‘

’’میں آج تک کبھی آپ سے خواہ مخواہ ناراض ہوئی ہوں ،آپ خود ایسے موقعے دیتے ہیں کہ مجھے ناراض ہونا پڑتا ہے۔‘‘

’’تو چلیے اب صلح ہو جائے۔‘‘

’’صلح ولح کے متعلق میں کچھ نہیں جانتی ،ان پندرہ برسوں میں آپ سے میں پندرہ ہزار مرتبہ صلح صفائی کر چکی ہوں مگر نتیجہ کیا نکلا ہے۔ وہی ڈھاک کے تین پات۔‘‘

’’ڈھاک کے تین پاتوں کو چھوڑو، تم مجھے میرا پارکر قلم لا کے دے دو ،مجھے چند بڑے ضروری خط لکھنے ہیں۔‘‘

’’مجھے کیا پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے ؟ لے گیا ہوگا کوئی اٹھا کر۔۔۔ اب میں ہر چیزکا دھیان تونہیں رکھ سکتی۔‘‘

’’تو پھر تم کس مرض کی دوا ہو؟‘‘

’’میں نہیں جانتی لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ آپ میری زندگی کا سب سے بڑا روگ ہیں۔‘‘

’’تو یہ روگ دور کرو ،ہر روگ کا کوئی نہ کوئی علاج موجود ہوتا ہے۔‘‘

’’خدا ہی بہتر کرے گا، یہ روگ۔۔۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر سے دور ہونےوالا نہیں۔‘‘

’’اگر تمہاری یہی خواہش ہے کہ مرجاؤں تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ میرے پاس اتفاق سے اس وقت قاتل زہر موجود ہے۔ میں تمہارے سامنے کھا کر مر جاتا ہوں۔‘‘

’’مر جائیے۔‘‘

’’اس کے لیے تو میں تیار ہوں تاکہ روز روز کی بک بک اور جھک جھک ختم ہو جائے۔‘‘

’’آپ تو چاہتے ہیں کہ اپنے فرائض سے چھٹکارا ملے۔ بیوی بچے جائیں بھاڑ میں، آپ آرام سے قبر میں سوتے رہیں لیکن میں آپ سے کہے دیتی ہوں کہ وہاں کا عذاب یہاں کے عذاب سے ہزار گنا زیادہ ہوگا۔‘‘

’’ہوا کرے۔۔۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر قائم ہوں۔‘‘

’’آپ کبھی اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہے۔‘‘

’’یہ سب جھوٹ ہے ۔میں جب کوئی فیصلہ کرتا ہوں تو اس پر قائم رہتا ہوں۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں سگریٹ نہیں پیوں گا چنانچہ اب تک اس پر قائم ہوں۔ ‘‘

’’پاخانے میں سگریٹ کے ٹکڑے کہاں سے آتے ہیں۔‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔۔۔ تم پیتی ہوگی۔‘‘

’’میں۔۔۔ مجھے تو اس چیز سے سخت نفرت ہے۔‘‘

’’ہو گی، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاخانہ بھی کوئی ایسی معقول جگہ ہے جہاں پرسگریٹ پیے جائیں۔‘‘

’’چوری چھپے جو پینا ہوا ،پاخانے کے علاوہ اور موزوں و مناسب جگہ کیا ہوسکتی ہے؟ آپ میرے ساتھ فراڈ نہیں کرسکتے۔ میں آپ کی رگ رگ کو پہچانتی ہوں۔‘‘

’’یہ تم نے مجھ سے آج ہی کہا کہ میں پاخانے میں چھپ چھپ کر سگریٹ پیتا ہوں۔‘‘

’’میں نے اس لیے اس کا ذکر آپ سے نہیں کیا تھا۔ آپ چونکہ تمباکو کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے سگریٹ نوشی آپ ترک نہیں کرسکتے لیکن یہ بہر حال بہتر ہے کہ آپ دو ایک سگریٹ دن میں پی لیتے ہیں جہاں آپ پچاس کے قریب پھونکتے تھے۔‘‘

’’میں نے ڈھائی برس میں ایک سگریٹ بھی نہیں پیا۔ بھنگی پیتا ہوگا۔‘‘

’’بھنگی گولڈ فلیک اور کریون اے نہیں پی سکتا۔‘‘

’’حیرت ہے۔ ‘‘

’’کس بات کی۔۔۔ حیرت تو مجھے ہے کہ آپ صاف انکار کر رہے ہیں، مجھے بنا رہے ہیں۔‘‘

’’نہیں میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سگریٹ وہاں کون پیتا ہے۔‘‘

’’آپ کے سوا اور کون پی سکتا ہے، مجھے تو اس کے دھوئیں سے کھانسی ہو جاتی ہے، مجھے تو اس سے سخت نفرت ہے، معلوم نہیں آپ لوگ کس طرح اس واہیات چیز کا دھواں اپنے اندر کھینچتے ہیں۔‘‘

’’خیر اس کو چھوڑو۔۔۔ میرا پار کر قلم مجھے دو۔۔۔‘‘

’’میرے پاس نہیں ہے۔‘‘

’’تمہارے پاس نہیں ہے تو کیا میرے پاس ہے۔ آج صبح تم خدا معلوم کسے خط لکھ رہی تھیں، تمہاری انگلیوں میں میرا ہی قلم تھا۔‘‘

’’تھا۔ لیکن مجھے کیا معلوم کہاں گیا۔ میں نے آپ کے میز پر رکھا ہو گا۔ اور آپ نے اٹھا کر کسی دوست کو دے دیا ہوگا۔ آپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘

’’دیکھو بیگم میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ قلم میں نے کسی دوست کو نہیں دیا، ہو سکتا ہے کہ تم نے اپنی کسی سہیلی کو دے دیا ہو۔‘‘

’’ میں کیوں اتنی قیمتی چیز کسی سہیلی کو دینے لگی۔ وہ تو آپ ہیں کہ ہزاروں اپنے دوستوں میں لٹا دیتے ہیں۔‘‘

’’اب سوال یہ ہے کہ وہ قلم ہے کہاں ؟مجھے چند ضروری خط لکھنے ہیں، جاؤ میری جان ! ذرا تھوڑی سی تکلیف کرو ممکن ہے ڈھونڈنے سے مل جائے۔‘‘

’’نہیں ملے گا۔۔۔ آپ فضول مجھے تکلیف دینا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’تو ایسا کرو دوات اور پن ہولڈر لے آؤ۔‘‘

’’دوات تو صبح آپ کی بچی نے توڑ دی ،پن ہولڈر بھانجے کے بیٹے نے۔‘‘

’’اتنے پن ہولڈر تھے، کہاں گئے؟‘‘

’’آپ ہی استعمال کرتے ہیں۔‘‘

’’میں نے آج تک پن ہولڈر کبھی استعمال نہیں کیا، کبھی کبھی تم کیا کرتی ہو۔‘‘

’’آپ کی بچیاں آفت کی پتلیاں ہیں، وہی توڑ پھوڑ کے پھینک دیتی ہوں گی۔‘‘

’’تم دھیان کیوں نہیں دیتیں۔‘‘

’’کس کس چیز کا دھیان رکھوں ۔مجھے گھر کے کام کاج سے فرصت نہیں ہے۔‘‘

’’اسی لیے تو میری دو گھڑیاں غائب ہوگئیں۔ جب دیکھو لیٹی رہتی ہو۔ خدا معلوم گھر کا کام کاج لیٹے لیٹےکیسے کرتی ہو۔‘‘

’’گھر کا سارا کام تو آپ کرتے ہیں۔‘‘

’’میں اس کا دعوی نہیں کرتا، بہر حال جو کچھ میں کرسکتا ہوں کرتا رہتا ہوں۔‘‘

’’کیا کرتے ہیں آپ ؟‘‘

’’ہفتے میں ایک دو دفعہ مارکیٹ جاتا ہوں، مرغی اور مچھلی خرید کر لاتا ہوں، انڈے بھی ،کوئلے کا پرمٹ بھی حاصل کرتا ہوں، گھی کا بندوبست کرتا ہوں اب میں اور کیا کرسکتا ہوں۔‘‘

’’مصروف آدمی ہوں، دفتر میں جاتا ہوں، وہاں نہ جاؤں تو مہینہ ختم ہونے کے بعد سات سو روپے کیسے آسکتے ہیں۔‘‘

’’ان سات سو روپوں میں سے آپ مجھے کتنے دیتے ہیں؟‘‘

’’پورے سات سو روپے۔‘‘

’’ٹھیک ہے لیکن آپ اپنا گزارہ کس طرح کرتے ہیں؟‘‘

’’ اللہ بہتر جانتا ہے۔‘‘

’’رشوت لیتے ہیں اور کیا ،ورنہ ساری تنخواہ مجھے دینے کے بعد آپ پانچ سو پچپن کے سگریٹ نہیں پی سکتے۔‘‘

’’میں نے سگریٹ پینے ترک کر دیے ہیں۔‘‘

’’آپ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟‘‘

’’میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ تم میرا پارکر قلم ذرا ڈھونڈ کے نکالو۔‘‘

’’میں آپ سے کہہ چکی ہوں کہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘

’’تو اور کس کے پاس ہے؟‘‘

’’مجھے کیا معلوم، میں نے صبح خط لکھ کر مینٹل پیس پر رکھ دیا۔‘‘

’’وہاں تو اس کا نام و نشان نہیں۔‘‘

’’آپ نے کسی دوست کو بخش دیا ہوگا۔۔۔ گیارہ بجے آپ کے چند دوست آئے تھے۔‘‘

’’میرے دوست کہاں تھے۔ صرف ملاقات کرنے آئے تھے۔ میں تو ان کا نام بھی نہیں جانتا۔‘‘

’’میرا نام بھی آپ بھول گئے ہوں گے، بتائیے کیا ہے۔‘‘

’’تمہارا نام۔۔۔ لیکن بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔۔۔ تم ۔۔۔ تم ہو۔۔۔ بس ۔۔۔؟‘‘

’’ان پندرہ برسوں میں آپ کو میرا نام بھی یاد نہیں رہا، میری سمجھ میں نہیں آتا آپ کس قسم کے انسان ہیں۔‘‘

’’قسمیں پوچھو گی تو حیران رہ جاؤ گی، ایک کروڑ سے زیادہ ہوں گی، اب جاؤ میرا قلم ڈھونڈو۔‘‘

’’میں نہیں جانتی کہاں ہے۔‘‘

’’یہ قمیص تم نے نئی سلوائی ہے۔‘‘

’’ہاں!‘‘

’’گریبان بہت خوبصورت ہے۔۔۔ ارے یہ اس میں تو میرا قلم اٹکا ہوا ہے۔۔۔‘‘

’’سچ میں نے یہاں اڑس لیا ہوگا۔ معاف کیجیے گا۔‘‘

’’ٹھہرو میں خود نکال لیتا ہوں۔ ممکن ہے تم قمیص پھاڑ ڈالو۔‘‘

’’یہ کیا گرا ہے؟‘‘

’’یہ کیا ہے۔۔۔ ارے یہ تو پانچ سو پچپن سگرٹوں کا ڈبہ ہے ،کہاں سے آگیا ہے؟‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.