سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو
سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو
پھانسی چڑھے جو قیدی زلف رسا نہ ہو
مضموں وہ کیا جو لذت غم سے بھرا نہ ہو
شاعر وہ کیا کلام میں جس کے مزا نہ ہو
بد نام میرے واسطے وہ دل ربا نہ ہو
یارب عدو کے ہاتھ سے میری قضا نہ ہو
جب اپنی کوئی بات بغیر از دعا نہ ہو
دشمن کے کہنے سننے سے ناداں خفا نہ ہو
ہو وہ اگر خلاف موافق ہوا نہ ہو
ڈوبے وہ ناؤ جس کا خدا ناخدا نہ ہو
دلدادگی کو حسن خداداد کم نہیں
ناصح اگر نہیں ہے بتوں میں وفا نہ ہو
روز جزا وہ شوخ ملے ہم کو اے خدا
اس کے سوا کچھ اور عدو کی سزا نہ ہو
مشکل کا سامنا ہو تو ہمت نہ ہاریے
ہمت ہے شرط صاحب ہمت سے کیا نہ ہو
بت آذران وقت بنائیں اگر ہزار
تیرا نظیر ایک بھی نام خدا نہ ہو
دھوکے میں میرے قتل کیا اس نے غیر کو
قاتل کا کیا قصور جو میری قضا نہ ہو
سچ ہے کہ ہر کمال کو دنیا میں ہے زوال
ایسا بڑا ہے کون جو آخر گھٹا نہ ہو
روز جزا سے واعظ ناداں اسے ڈرا
صدمہ شب فراق کا جس نے سہا نہ ہو
ملتا نہیں پتا ترے چھلے کے چور کا
اے گل بدن یہ شوخی دزد حنا نہ ہو
تیرا گلہ نہ غیر کا شکوہ زباں پہ ہے
کرتا ہوں عرض حال ستم گر خفا نہ ہو
پاتے ہیں کج سرشت جزا اپنے فعل کی
کہتی ہے راستی کہ برے کا بھلا نہ ہو
بلبل نہ پھول خندۂ صبح بہار پر
ناداں کہیں یہ خندۂ دنداں نما نہ ہو
تیری زباں پہ آئے اگر حرف التیام
کیوں کر شکست دل کے لئے مومیا نہ ہو
غافل مریض عشق کی تو نے خبر نہ لی
تھا غیر اس کا حال وہ اب تک ہو یا نہ ہو
شرمندہ اے کریم نہ ہوں عاشقوں میں ہم
پرسش ہمارے قتل کی روز جزا نہ ہو
کرتا ہے اے اثرؔ دل خوں گشتہ کا گلہ
عاشق وہ کیا کہ خستۂ تیغ جفا نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |