سن رکھو اسے دل کا لگانا نہیں اچھا
Appearance
سن رکھو اسے دل کا لگانا نہیں اچھا
دنیا یہ بری ہے یہ زمانہ نہیں اچھا
سب لوٹ لیا ایک نظر دیکھ کے مجھ کو
اے دزد نگہ دل کا چرانا نہیں اچھا
کیوں جھینپتے ہو غیروں میں ہاں پھر تو کہو وہ
گالی ہی تو تھی بات بنانا نہیں اچھا
عریاں بدنی پر نہ حبابوں کی پڑے آنکھ
دریا میں مری جان نہانا نہیں اچھا
افسوس کی صورت نہ بناؤ نہ رلاؤ
دل پستہ ہے ہونٹوں کا چبانا نہیں اچھا
روتے ہیں ہنساتے ہو بھری بزم میں صاحب
چپ بیٹھے رہو دھیان بٹانا نہیں اچھا
کوچے سے چلے جائیے اخترؔ کہیں اب اور
مضمون بہت عشق کا چھانا نہیں اچھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |