سمند گرم جو یاں اس سوار کا پہنچا
Appearance
سمند گرم جو یاں اس سوار کا پہنچا
غبار تا فلک اس خاکسار کا پہنچا
تو سچ بتا کہ تجھے اتنی کیوں ہے بے چینی
مگر پیام کسی بے قرار کا پہنچا
ملے ہے پاؤں سے اپنے وہ لالہ رو ہر دم
یہ مرتبہ تو دل داغدار کا پہنچا
ہے یاں تلک تو نزاکت گلوں کے گجرے سے
لچکنے لگتا ہے اس گل غدار کا پہنچا
قفس سے چھٹنے کی امید ہی نہیں افسوسؔ
حصول کیا ہے جو مژدہ بہار کا پہنچا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |