سمجھ گھر یار کا میں شہ نشین دل کو دھوتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سمجھ گھر یار کا میں شہ نشین دل کو دھوتا ہوں
by مرزا اظفری
316441سمجھ گھر یار کا میں شہ نشین دل کو دھوتا ہوںمرزا اظفری

سمجھ گھر یار کا میں شہ نشین دل کو دھوتا ہوں
کہیں ہیں لوگ دیوانے کہ دیوانہ ہوں روتا ہوں

بجھائے اشک یہ خوں کے جو فوارے اچھلتے ہیں
مژہ سے یار کے لے نشتر آنکھوں میں چبھوتا ہوں

مدد اے خضر گریہ غرق کریو ناؤ دل آج ہی
یہ ہے ڈبوانے والا میں اسے پہلے ڈبوتا ہوں

بت سنگین دل کی دیکھ تصویر آنکھیں پتھرائیں
ٹھٹک ہوں نقش قالیں سا نہ روتا ہوں نہ سوتا ہوں

میں کوئے میکشان و مہوشاں کے متصل پہنچا
خبردار اے حریفو اب حواس و ہوش کھوتا ہوں

مبادا میرے گل رو کا گل رخسار مرجھاوے
پھوار اے اظفریؔ دے آنسوؤں کی میں بھگوتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse