سر کو نوشہ کے مرے شاہ نے باندھا سہرا
سر کو نوشہ کے مرے شاہ نے باندھا سہرا
سورۂ نور کا دکھلاتا ہے جلوہ سہرا
ریش یعقوب نے رکھی ہے رخ یوسف پر
چشم بد دور کہ ہے زلف زلیخا سہرا
باغ الفت سے حسینوں نے جو کلیاں بینی
اس پری کے لئے پریوں نے بنایا سہرا
جدولیں سونے کی یاقوت رقم نے کھینچی
یا ہے مصحف پہ سر لوح مطلا سہرا
جلوۂ طور کا موسی کو گماں ہو جاتا
میرے نوشہ جو ذرا دیکھتے سر کا صحرا
شعلۂ حسن جو ان کا نہ چھپا سہرے میں
عجز سے آپ کو قدموں پہ گرایا سہرا
پوتے پڑپوتوں کے تم باندھیو سر کو سہرے
جیسا بابا نے تمہارے تمہیں باندھا سہرا
حب کا تعویذ بنے پھول ہر اک سہرے کا
وصل یار اس کو ہو جس نے ترا دیکھا سہرا
اوفتادہ بھی ہے یہ اور بڑا شوخ بھی ہے
گل رخسار کا لے لیتا ہے بوسہ سہرا
سہرا جو باندھتے ہیں ہند میں نوشاہوں کو
چشم بد کے لئے شاید ہے یہ نکلا سہرا
پنجۂ مہر سے زہرا نے بلائیں لے لیں
جب نسیمؔ چمن شوق نے لکھا سہرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |