سر شام اس نے منہ سے جو رخ نقاب الٹا
سر شام اس نے منہ سے جو رخ نقاب الٹا
نہ غروب ہونے پایا وہیں آفتاب الٹا
جو کسی نے 'قیس و لیلیٰ' اسے لا کے دی مصور
نہ حیا کے مارے اس نے ورق کتاب الٹا
میں حساب بوسہ جی میں کہیں اپنے کر رہا تھا
وہ لگا مجھی سے کرنے طلب اور حساب الٹا
جو ہیں آشنائے مشرب وہ کسی سے ہوں نہ سائل
اسی واسطے رہے ہے قدح حباب الٹا
مہ چار دہ کا عالم میں دکھاؤں گا فلک کو
اگر اس نے پردہ منہ سے شب ماہتاب الٹا
جو خفا ہوا میں جی میں کسی بات پر شب وصل
سحر اٹھ کے میرے آگے وہیں اس نے خواب الٹا
بہ سوال بوسہ اس نے مجھے رک کے دی جو گالی
میں ادب کے مارے اس کو نہ دیا جواب الٹا
کہیں چشم مہر اس پر تو نہ پڑ گئی ہو یا رب
جو نکلتے صبح گھر سے وہ پھرا شتاب الٹا
میں ہوا ہوں جس پہ عاشق یہ شگرف ماجرا ہے
کہ مرے عوض لگا ہے اسے اضطراب الٹا
کسی مست کی لگی ہے مگر اس کے سر کو ٹھوکر
جو پڑا ہے میکدے میں یہ خم شراب الٹا
یہ مقام آفریں ہے کہ بزور مصحفی نے
انہی قافیوں کو پھر بھی بصد آب و تاب الٹا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |