Jump to content

سر سید مرحوم اور اردو لٹریچر

From Wikisource
سر سید مرحوم اور اردو لٹریچر
by شبلی نعمانی
319435سر سید مرحوم اور اردو لٹریچرشبلی نعمانی

سرسید کے جس قدر کارنامے ہیں اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظرآتی ہے، لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرے سے آفتاب بن گئیں، ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق وعاشقی کے دائرے سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور اور اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں۔ ملک میں آج بڑے بڑے انشا پرداز موجود ہیں جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمراں ہیں، لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سرسید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکتا ہو۔ بعض بالکل ان کے دامن تربیت میں پلے ہیں، بعضوں نے دور سے فیض اٹھایا ہے، بعض نے مدعیانہ اپنا الگ رستہ نکالا، تاہم سرسید کی فیض پذیری سے بالکل آزاد کیونکر رہ سکتے تھے۔ سرسید کی جس زمانے میں نشو و نما ہوئی، دلی میں اہل کمال کا مجمع تھا، اور امرا اور رؤسا سے لے کر ادنیٰ طبقے تک میں علمی مذاق پھیلا ہوا تھا۔ سرسید جس سوسائٹی کے ممبر تھے اس کے بڑے ارکان مفتی صدر الدین خاں آرزردہ، مرزاغالب اور مولانا صہبائی تھے۔ ان میں سے ہرشّخص تصنیف و تالیف کا مالک تھا اور انہی بزرگوں کی صحبت کا اثر تھا کہ سرسید نے ابتدا ہی میں جو مشغلہ علمی اختیار کیا وہ تصنیف و تالیف کا مشغلہ تھا۔ اول وہ رواج عام کے اقتضا سے شاعری کے میدان میں آئے، آہی تخلص اختیار کیا اور اردو میں ایک چھوٹی سی مثنوی لکھی، جس کا ایک مصرع انہی کی زبانی سنا ہوا مجھے یاد ہے، نام میرا تھا کام ان کا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو شاعری سے مناسبت نہ تھی، اس لئے وہ بہت جلد اس کوچے سے نکل آئے اور نثر کی طرف توجہ کی۔ چونکہ حقائق اور واقعات کی طرف ابتدا سے میلان تھا اس لئے دلی کی عمارتوں اور یادگاروں کی تحقیقات شروع کی اور نہایت محنت و کوشش سے اس کام کو انجام دے کر ۱۸۴۷ میں ایک مبسوط کتاب لکھی جو آثار الصنادید کے نام سے مشہور ہے۔ اس وقت اگرچہ سرسید کے سامنے اردو نثر کے بعض بعض عمدہ نمونے موجود تھے، خصوصا ًمیر امن صاحب کی چہار درویش جو ۱۸۰۲ میں تالیف ہوئی تھی اور جس کی سادگی، صفائی اور واقعہ طرازی آج بھی موجودہ تصنیفات کی ہمسری کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ مضمون جو اختیار کیا گیا تھا، یعنی عمارات اور ابنیہ کی تاریخ وہ تکلف اور آورد سے اِبا کرتا تھا، تاہم آثار الصنادید میں اکثرجگہ بیدل اور ظہوری کا رنگ نظرآتا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سرسید کی رات دن کی صحبت مولانا امام بخش صہبائی سے رہتی تھی، اور مولانا موصوف بیدل کے ایسے دلدادہ تھے کہ ان کا کلمہ پڑھتے تھے اور جو کچھ لکھتے تھے، اسی طرز میں لکھتے تھے۔ سرسید نے مجھ سے خود بیان کیا کہ آثار الصنادید کے بعض بعض مقامات بالکل مولانا امام بخش صہبائی کے لکھے ہوئے ہیں ،جو انہوں نے میری طرف سے اور میرے نام سے لکھ دیے تھے۔ بہرحال اس کتاب میں جہاں جہاں انشا پردازی کا زور دکھایا ہے، اس کا نمونہ یہ ہے، ’’ان حضرت کی طبع رسا شکلِ رابع سے پہلے اس سے نتیجہ حاصل کرتی ہے کہ بدیہی الانتاج سے ارباب فہم و ذکا اور ناخن فکرعقدہ لا ینحل کو پہلے اس سے وا کرتا ہے کہ گرہ حباب کو انگشت موج دریا۔ معنی فہمی اس درجہ کہ راست و درست سمجھ لیا کہ زبان سو سن نے کیا کہا اور رمز شناسی اس مرتبہ کہ واقعی معلوم ہوگیا کہ نگاہ نرگس نے کیا اشارہ کیا۔ اگر ان کی رائےروشن معجزنما ہو تو نقطہ موہوم کو انگشت سے تقسیم کرے اور جزلا یتجزی کو دویم۔‘‘اگرچہ اس سے بہت پہلے یعنی ۱۸۳۶ میں مولوی محمد حسین آزاد کے والد بزرگوار مولوی محمد باقر نے اردو اخبارکے نام سے اردو کا ایک پرچہ نکالا تھا اور خود سرسید نے ایک پرچہ جاری کیا تھا جس کا نام سید الاخبار تھا اور دونوں پرچوں کی زبان، ضرورت کے اقتضا سے سادہ اور صاف ہوتی تھی۔ تاہم اس وقت تک یہ زبان علمی زبان نہیں سمجھی جاتی تھی اس لئے جب کوئی شخص علمی حیثیت سے کچھ لکھتا تھا تو اسی فارسی نما طرز میں لکھتا تھا۔ سرسید نے بھی اسی وجہ سے آثار الصنادید میں جہاں انشا پردازی سے کام لیا اسی طرز کو برتا۔ آثار الصنادید جس زمانے میں نکلی، اس کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد تقریبا ۱۸۵۰ میں دلی کے مشہور شاعر مرزاغالب نے اردو کی طرف توجہ کی، یعنی مکاتبات وغیرہ اردو میں لکھنے شروع کئے اور چونکہ وہ جس طرف متوجہ ہوتے تھے، اپنا کوچہ الگ نکال کر رہتے تھے، اس لئے انہوں نے تمام ہم عصروں کے برخلاف مکاتبے کو مکالمہ کردیا۔ مکاتبات میں وہ بالکل اس طرح ادائے مطلب کرتے تھے جیسے دو آدمی آمنےسامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ بہت سے خطوط میں انسانی جذبات، مثلاً رنج وغم، مسرت و خوشی، حسرت و بے کسی کو نہایت خوبی سے ادا کیا ہے۔ اکثر جگہ واقعات کو اس بے ساختگی سے ظاہر کیا کہ واقعے کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ اردو انشا پردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے اس کا سنگ بنیاد در اصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔ سرسید کو مرزا سے جو تعلق تھا، وہ ظاہر ہے۔ اس لئے کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ سرسید ضرور مرزا کی طرز سے مستفید ہوئے۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے ہرحصے میں کثرت سے اردو اخبارات جاری ہوگئے اور انشا پردازی کو روز بروز ترقی ہوتی گئی۔ اخبارات کو ہرقسم کے اخلاقی، تمدنی، ملکی،مذہبی، تاریخی مسائل سے کام پڑتا تھا، اس لئے ہرقسم کے مضامین لکھے گئے، تاہم انشا پردازی کا کوئی خاص اسٹائل متعین نہیں ہوا تھا۔ اس کےعلاوہ جو کچھ تھا ابتدائی حالت میں تھا۔ ۱۲۸۷ھ میں جس کو آج کم و بیش ۲۷ برس ہوئے، سرسید نے قوم کی حالت کی اصلاح کے لئے تہذیب الاخلاق کا پرچہ نکالا اور اردو انشا پردازی کو اس رتبے پر پہنچا دیا جس کے آگے اب ایک قدم بڑھنا بھی ممکن نہیں۔ سرسید نے اردو میں جو باتیں پیدا کیں اس کو وہ مختصراً تہذیب الاخلاق میں خود ایک مقام پر لکھتے ہیں، ان کی خاص عبارت یہ ہے،’’جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے اردو زبان کی، علم و ادب کی ترقی میں اپنے ناچیز پرچوں کے ذریعہ سے کوشش کی۔ مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ رنگین عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیالی سے بھری ہوئی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوں میں رہتی ہے اور دل پر اس کا کچھ اثرنہیں ہوتا، پرہیز کیا۔ اس میں کوشش کی جو کچھ لطف ہو، مضمون کے ادا میں ہو۔ جو اپنے دل میں ہو، وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل سےنکلے اوردل میں بیٹھے۔‘‘ اس آرٹیکل میں سرسید نے انشاپردازی کے اور بہت سے اصول بنائے ہیں جن کو اس موقع پر ہم اختصار کی وجہ سے قلم انداز کرتے ہیں۔ سرسید کی انشاپردازی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہر قسم کے مختلف مضامین پر کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ لکھا ہے اورجس مضمون کو لکھا ہے اس درجے پر پہنچا دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ناممکن ہے۔ فارسی اور اردو میں بڑے بڑے شعرا اور نثار گزرے ہیں، لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو تمام قسم کے مضامین کا حق ادا کر سکتا۔ فردوسی بزم میں رہ جاتا ہے، سعدی رزم کے مرد میدان نہیں، نظامی رزم بزم دونوں کے استاد ہیں، لیکن اخلاق کے کوچے سے آشنا نہیں، ظہوری صرف مدحیہ نثر لکھ سکتا ہے، برخلاف اس کے سرسید نے اخلاق، معاشرت، پالیٹکس، مناظر قدرت وغیرہ وغیرہ سب پر لکھا ہے اور جو کچھ لکھا ہے لاجواب لکھا ہے۔ مثال کے طور پر بعض بعض مضامین کے جستہ جستہ فقرے نقل کرتے ہیں۔ امید کی خوشی پر ایک مضمون لکھا ہے جس میں امید کو مخاطب کیا ہے، اس کے چند فقرے یہ ہیں، ’’دیکھ نادان بے بس بچہ گہوارے میں ہوتا ہے، اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے، اور اس گہوارے کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے، ہاتھ کام میں اور دل بچے میں ہے، اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے، سورہ میرے بچے سورہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سورہ، اے میرے دل کی کونپل سورہ، بڑھ اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آئے، تیری ٹہنی میں کبھی کوئی خار نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آئے، سورہ میرے بچے سورہ، میری آنکھوں کے نور اورمیرے دل کے سرور میرے بچے سورہ، تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہوگا، تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہوگی، تیری شہرت، تیری لیاقت، تیری محبت جو تو ہم سے کرے گا، ہمارے دل کو تسلی دیں گی۔ سورہ میرے بچے سورہ، سورہ میرے بالے سورہ۔‘‘’’یہ امید کی خوشیاں ماں کو اس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگرجب وہ ذرا اور بڑا ہوا اور معصوم ہنسی سے ماں کے دل کو شاد کرنے لگا اور اماں اماں کہنا سیکھا، اس کی پیاری آواز ادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہنچنے لگی، آنسوؤں سے اپنی ماں کی آتش محبت کے بھڑکانے کے قابل ہوا۔ پھر مکتب سے اس کو سرو کار پڑا۔ رات کو ماں کے سامنے دن کا پڑھا ہوا سبق غمزدہ دل سے سنانے لگا اور جب کہ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھ کر منہ ہاتھ دھوکر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا اور اپنے بے گناہ دل، بے گناہ زبان سے، بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا تو امید کی خوشیاں اور کس قدر زیادہ ہوگئیں اور ہماری پیاری امید! تویہی ہے جومہد سے لحد تک ہمارے ساتھ ہے۔‘‘’’وہ دلاور سپاہی لڑائی کے میدان میں کھڑا ہے، کوچ پرکوچ کرتے تھک گیا ہے، لڑائی کے میدان میں جبکہ بہادروں کی صفیں کی صفیں چپ چاپ کھڑی ہوتی ہیں اور لڑائی کا میدان ایک سنسان کاعالم ہوتا ہے، دلوں میں عجیب قسم کی خوف ملی ہوئی جرأت ہوتی ہے اور جب کہ لڑائی کا وقت آتا ہے اور وہ آنکھ اٹھا کر نہایت بہادری سے بالکل بے خوف ہوکر لڑائی کے میدان کو دیکھتا ہے اور جبکہ بجلی سی چمکنے والی تلواریں اور سنگینیں ، اس کی نظر کے سامنے ہوتی ہیں، اور بادل کی سی کڑکنے والی اور آتشیں پہاڑ کی سی آگ برسانے والی توپوں کی آواز سنتا ہے اور جبکہ اپنے ساتھی کو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا ہوا دیکھتا ہے۔ تو اے بہادروں کی قوت بازو! اور اے بہادروں کی ماں! تیرے ہی سبب سے فتح مندی کا خیال اس کے دل کو تقویت دیتا ہے، اس کان نقارے میں سے تیرے ہی نغمے کی آواز سنتا ہے۔‘‘تم دیکھ سکتے ہو کہ ان چند سطروں میں کس طرح نیچر کی تصویر کھینچی ہے اور اس میں کس قدر درد اور اثر پیدا کیا ہے۔ پالیٹکس کا راستہ اس سے بالکل الگ ہے۔ پنجاب میں جب یونیورسٹی قائم ہو رہی تھی، جس میں اورینٹل تعلیم پر بہت زور دیا گیا تھا، سرسید کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اس سے پالیٹکس کی بنا پر ہم کو اعلیٰ تعلیم سے روکنا مقصود ہے، اس وقت سرسید نے پے در پے تین آرٹیکل لکھے۔ ان آرٹیکلوں نے یونیورسٹی کے بانیوں کو اس قدر گھبرا دیا کہ خاص ان آرٹیکلوں کے جواب میں سیکڑوں مضامین لکھے گئے۔ اور ان کا مجموعہ یک جا کر کے ایک مستقل کتاب تیار کی۔ افسوس ہے کہ اختصار کی وجہ سے ہم ان آرٹیکلوں کا کوئی حصہ نقل نہیں کرسکتے۔ سرسید نے انشا پردازی کی ترقی کے جو طریقے ایجاد کئے، ان میں ایک یہ تھا کہ بہت سے اعلیٰ درجے کے انگریزی مضامین کو اردو زبان کا قالب پہنایا، لیکن ترجمے کے ذریعہ سے نہیں کیوں یہ طریقہ اب تک بے سود ثابت ہوا ہے، بلکہ اس طرح کہ انگریزی کے خیالات اردو میں اردوکی خصوصیات کے ساتھ ادا کئے۔ امید کی خوشی کا مضمون جس کے ہم نے بعض فقرات اوپر نقل کئے، در اصل ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے۔ انگریزی میں اڈیسن اور اسنیل بڑے مضمون نگار گزرے ہیں۔ سرسید نے ان کے متعدد مضامین کو اپنی زبان میں ادا کیا۔ سرسید کی انشا پردازی کا بڑا کمال اس موقع پرمعلوم ہوتا ہے جب وہ کسی علمی مسئلے پر بحث کرتے ہیں۔ اردو زبان چونکہ کبھی علمی زبان کی حیثیت سے کام میں نہیں لائی گئی، اس میں علمی اصطلاحات ، علمی الفاظ اور علمی تلمیحات بہت کم ہیں، اس لئے اگر کسی علمی مسئلے کو اردو میں لکھنا چاہو تو الفاظ مساعدت نہیں کرتے، لیکن سرسید نے مشکل سے مشکل مسائل کو اس وضاحت، صفائی اور دل آویزی سے ادا کیا ہے کہ پڑھنے والا جانتا ہے کہ وہ کوئی دلچسپ قصہ پڑھ رہا ہے۔ پروفیسر رینان نے جو فرانس کا ایک بڑا مصنف گزرا ہے، اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’عربی زبان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ فلسفی مسائل کو ادا کر سکے۔‘‘ رینان جن مسائل کے ادا کرنے کے لئےعربی زبان کو نا قابل سمجھا ہے (گویا اس کا خیال محض غلط ہے) سرسید نے اردو جیسی کم مایہ زبان میں وہ مسائل ادا کر دیے ہیں۔ سرسید نے فلسفہ الہیات پرجو کچھ اپنی مختلف تحریروں میں لکھا ہے، وہ فلسفے کے اعلیٰ درجے کے مسائل ہیں۔ زمانہ جانتا ہے کہ مجھ کو سرسید کے مذہبی مسائل سے سخت اختلاف تھا اور میں ان کے بہت سے عقائد و خیالات کو بالکل غلط سمجھتا تھا۔ تاہم اس سے مجھ کو کبھی انکار نہ ہوسکا کہ ان مسائل کو سرسید نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا، کوئی اور شخص کبھی ادا نہیں کرسکتا۔ سرسید کی تحریروں میں جا بجا ظرافت اور شوخی بھی ہوتی ہے لیکن نہایت تہذیب اور لطافت کے ساتھ۔ مولوی علی بخش خاں صاحب مرحوم جو سرسید کے رد میں رسالے لکھا کرتے تھے، حرمین شریفین گئےاور وہاں سے سرسید کی تکفیر کا فتویٰ لائے۔ اس پرسرسید ایک موقع پر تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں، ’’جو صاحب ہماری تکفیر کے فتوے لینے کو مکہ معظمہ تشریف لے گئے تھے اور ہمارے کفر کی بدولت ان کو حج اکبرنصیب ہوا، ان کے لائے ہوئے فتوؤں کے دیکھنے کے ہم بھی مشتاق ہیں۔بہ بین کرامت بت خانہ مرا ای شیخ کہ چون خراب شود خانہ خدا گرددسبحان اللہ ہمارا کفربھی کیا کفر ہے، کہ کسی کو حاجی اور کسی کو ہاجی، اور کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان بناتا ہے۔باران کہ درلطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس۔‘‘تہذیب الاخلاق جب بند ہوا ہے، تو سرسید نے خاتمے پر جو مضمون لکھا ہے، اس کے ابتدائی فقرے یہ ہیں۔ ’’سوتوں کو جھنجھوڑتے ہیں کہ جاگ اٹھیں۔ اگر اٹھ کھڑے ہوئے تو مطلب پورا ہوگیا اور اگر نیند میں اٹھانے سے کچھ بڑبڑائے، کچھ جھنجھلائے، ادھر ہاتھ جھٹک دیا، ادھر پیر جھٹک دیا اور اینڈے پڑے سوتے ہیں تو بھی توقع ہوئی کہ تھوڑی دیر بعد جگ اٹھیں گے۔ شاید ہمارے بھائیوں کی اس اخیر درجہ تک نوبت آگئی ہے۔ اگر یہ خیال ٹھیک ہو تو ہم کو بھی زیادہ نہ چھیڑنا چاہئے، بچے اٹھاتے وقت کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم کو اٹھائے جاؤگے ، تو ہم اور پڑے رہیں گے، تم ٹھہرجاؤ ہم آٖپ ہی اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بچہ کڑوی دوا پیتے وقت منہ بسور کرماں سے کہتا ہے کہ بی! یہ مت کہے جاؤ کہ شاباش بیٹا پی لے پی لے، تم چپ رہو، میں آپ ہی پی لوں گا۔ لو بھائیو! اب ہم بھی نہیں کہتے کہ اٹھو اٹھو، پی لو پی لو۔‘‘حقیقت یہ ہے کہ سرسید نے اردو انشا پردازی پر جواثر ڈالا ہے اس کی تفصیل کے لئے دو چار صفحے کافی نہیں ہو سکتے۔ یہ کام در حقیقت مولانا حالی کا ہے، وہ لکھیں گے اور خوب لکھیں گے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لکھ چکے ہیں اور خوب لکھا ہوگا۔ میں کالج کی طرف سے مجبور کیا گیا تھا۔ اس وقت جب کہ تمام ملک میں سرسید کا آوازہ ماتم گونج رہا ہے، اور ہر شخص ان کے کارناموں کے سننے کا شائق ہے، کچھ نہ کچھ مختصر طور پر فورا ًلکھنا چاہئے، میں نے اسی کی تعمیل کی ورنہ میں مولانا حالی کی مقبوضہ سرزمین میں مداخلت کا کوئی حق نہیں رکھتا اور اس شعر کا مصداق بننا نہیں چاہتا،بھلا تردد بے جا سے اس میں کیا حاصل اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.