سر جھکاتا نہیں کبھی شیشہ
Appearance
سر جھکاتا نہیں کبھی شیشہ
ہم سے کرتا ہے سرکشی شیشہ
کرہ نار ہے مرا سینہ
شیشۂ دل ہے آتشی شیشہ
دل میں رکھا تھا اس کو دل بھی گیا
اڑ گئی لے کے اک پری شیشہ
دختر رز پہ زور عالم ہے
اس پری سے ہوا پری شیشہ
خون روتا ہے قہقہے کے ساتھ
خوب ہنستا ہے یہ ہنسی شیشہ
زخم دل کا جو پھٹ گیا انگور
ہوئے گا مے کا مستجی شیشہ
یاد آتا ہے مجھ کو دل اے مہرؔ
دیکھتا ہوں میں جب کبھی شیشہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |