سرو میں رنگ ہے کچھ کچھ تری زیبائی کا
سرو میں رنگ ہے کچھ کچھ تری زیبائی کا
جامۂ گل میں ہے چھاپہ تری رعنائی کا
پاؤں سے راز کھلا بادیہ پیمائی کا
جو پھپھولا تھا ڈھنڈھورا ہوا رسوائی کا
ساتھ آیا کوئی میری نہ کوئی جائے گا ساتھ
مورد لطف ازل سے ہوں میں تنہائی کا
زلف کی ایک ہی جھٹکے میں کلیجہ پھڑکا
بہت ایوب کو دعویٰ تھا شکیبائی کا
چار دن اور جوانی کے گزر جانے دو
حال پوچھیں گے جوانوں سے توانائی کا
جوش میں کوئی نہیں جامہ دری کا مانع
ہتھکڑی ہاتھ پکڑتی نہیں سودائی کا
حال قابیل کا ہابیل سے پوچھے کوئی
وہ زمانہ ہے کہ بھائی ہے عدو بھائی کا
لشکر غم کی چڑھائی ہے خبردار اے دل
مورچہ ٹوٹنے پائی نہ شکیبائی کا
کیوں نہ پلکیں ہوں جفا کار جو آفت ہوں بھویں
بل ہے تیروں کو کمانوں کی توانائی کا
کوئی سجدہ تری درگاہ کی قابل نہ ہوا
لے چلا داغ جبیں پر میں جبیں جائی کا
اف نہیں کرتے ہیں عشاق ستم سہتے ہیں
کیا ہی دلبر کو سلیقہ ہے دل آرائی کا
یار کی حسن جوانی کا میں دیوانہ ہوں
خط رخسار ہے محضر مری رسوائی کا
مثل نے سینے میں پڑ جائیں گے چھید اے بلبل
نہ اڑا طرز مرے زمزمہ پیرائی کا
عکس آئینے میں صورت کا پتا دیتا ہے
کھل گیا حال دوئی سے تری یکتائی کا
اپنے ہستی کو سمجھتا رہے برباد انسان
چار عنصر نہیں جھونکا ہے یہ چوپائی کا
برق گریہ ہے شب و روز بتوں کے غم میں
بحرؔ تیرا ہے جنم مردم دریائی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |