سدھاری قوت دل تاب اور طاقت سے کہہ دیجو
Appearance
سدھاری قوت دل تاب اور طاقت سے کہہ دیجو
ہوئے ہیں ناتواں ہم بستر راحت سے کہہ دیجو
موا بھی میں تو اے یارو جو یاروں سے مرے ہووے
سلام شوق اس کا تم مری تربت سے کہہ دیجو
گر اے قاصد تو اس کے روبرو جاوے اشارے سے
دعا میری بھی اس معشوق کم فرصت سے کہہ دیجو
سنو اے یارو اک معشوق ہرجائی کے جلوے نے
پھرایا در بدر میرے تئیں غربت سے کہہ دیجو
بیاں جو جو کہ صورت تجھ سے کی ہے میں نے اے قاصد
تو اس کے کان میں جھک کر اسی صورت سے کہہ دیجو
بھلا اس کا تو دل خوش ہووے گا اس بات کو سن کر
نہ پہنچے مدعا کو اپنے ہم حسرت سے کہہ دیجو
ہوا دیوانہ، تھا وہ مصحفیؔ تیرا جو سودائی
صبا گر اس گلی میں جائے، جمعیت سے کہہ دیجو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |