سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے
Appearance
سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے
جو جینا یہی ہے تو کیا زندگی ہے
چھپا منہ نہ اپنا کہ مر جائیں گے ہم
پری رو ترا دیکھنا زندگی ہے
مجھے خضر سے دو نہ جینے میں نسبت
کہ اس کی بہ آب بقا زندگی ہے
تری بے وفائی کا شکوہ کریں کیا
خود اپنی ہی یاں بے وفا زندگی ہے
اجل کے سوا اس کی دارو نہیں کچھ
عجب درد دور از دوا زندگی ہے
تو گلشن میں رہ گل یہ کہتا تھا اس سے
ترے دم سے میری صبا زندگی ہے
جنہوں نے کیا ہے دل آئینہ اپنا
انہیں لوگوں کی با صفا زندگی ہے
کہاں کی ہوا تک رہا ہے تو ناداں
کہ پل مارتے یاں ہوا زندگی ہے
نہ ہم مفت مرتے ہیں کوئے بتاں میں
کہ مرنے سے یاں مدعا زندگی ہے
تو اے مصحفیؔ گر ہے عاشق فنا ہو
کہ عاشق کو بعد از فنا زندگی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |