Jump to content

سخت جانی کا سہی افسانہ ہے

From Wikisource
سخت جانی کا سہی افسانہ ہے
by منیرؔ شکوہ آبادی
316908سخت جانی کا سہی افسانہ ہےمنیرؔ شکوہ آبادی

سخت جانی کا سہی افسانہ ہے
شاہد تیغ زباں دندانہ ہے

مقتل عالم مرا ویرانہ ہے
دیدۂ بسمل چراغ خانہ ہے

شمع روشن عارض جانانہ ہے
خال مشکیں شمع کا پروانہ ہے

دل میں عکس چہرۂ جانانہ ہے
آئنے کا آئنے میں خانہ ہے

کون دنیا میں رہے دیوانہ ہے
ایک اجڑا سا مسافر خانہ ہے

تیری محفل کعبہ ہے اے شمع رو
طائر قبلہ نما پروانہ ہے

آنکھیں ملتا ہوں تمہاری زلف سے
پنجۂ مژگاں برنگ شانہ ہے

شمع رویوں کی تجلی دیکھیے
کرمک شب تاب ہر پروانہ ہے

آب خنجر کیا شراب ناب تھی
رقص بسمل لغزش مستانہ ہے

خلق عالم ہمیں پہنچتا ہے گزند
نفس امارہ سگ دیوانہ ہے

بادہ نوشان ازل ہیں سیر چشم
جس طرف دیکھیں ادھر مے خانہ ہے

ابر آتا ہے تو بکتی ہے شراب
نقد رحمت حاصل مے خانہ ہے

ایک تیرے نام کا کرتا ہوں ذکر
مجھ کو ورد سبحۂ یکدانہ ہے

کھاتے ہیں انگور پیتے ہیں شراب
بس یہی مستوں کا آب و دانہ ہے

کس طرف کرتے ہو سجدے زاہدو
کعبہ ایک اجڑا ہوا بت خانہ ہے

چشم موسیٰ کے ہوں پردے کان میں
لن ترانی کا بیان افسانہ ہے

ٹھنڈے ٹھنڈے سوتے ہیں زیر زمیں
گور اپنے واسطے تہہ خانہ ہے

کیا بنے سودا ترا اے خود فروش
مول جو ہم نے کہا بیعانہ ہے

دیکھتے ہیں بت مری بیتابیاں
سر بہکنا سجدۂ شکرانہ ہے

کیا ترا آئینۂ رو صاف ہے
نقد جاں لیتا یہاں جرمانہ ہے

گرم نالے سرد ہیں اے ہم صفیر
ظاہراً کنج قفس خس خانہ ہے

کی مے مفت آج قاضی نے حلال
فی سبیل اللہ ہر مے خانہ ہے

اختلاط اپنے عناصر میں نہیں
جو ہے میرے جسم میں بیگانہ ہے

کیا سمندر کو دکھائیں گرمیاں
دوزخ اپنا ایک آتش خانہ ہے

ہو گئے مثل سلیماں اہل عشق
اے پری کیا ہمت مردانہ ہے

دل ہے آئینہ تو اسکندر ہوں میں
حسن کی دولت مرا نذرانہ ہے

عرش تک گردوں سے دیکھا اے صنم
سات زینے کا یہ بالا خانہ ہے

کھیل جاتے ہیں ہزاروں جان پر
عشق بازی بازیٔ طفلانہ ہے

جان دیتا ہوں مگر آتی نہیں
موت کو بھی ناز معشوقانہ ہے

پاتے ہیں نقد زر گل بے حساب
باغ عالم اس کا دولت خانہ ہے

آج ہے محو شنا وہ شمع رو
ہر پر ماہی پر پروانہ ہے

دل کہاں یہ نفس امارہ کہاں
آئنہ پیش سگ دیوانہ ہے

عفت مشاطہ کس سے ہو بیاں
پنجۂ مریم تمہارا شانہ ہے

مے کدہ کے کام دل سے لیجئے
خم کا خم پیمانہ کا پیمانہ ہے

لکھنؤ کا مجھ کو سودا ہے منیرؔ
دل حسین آباد پر دیوانہ ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.