Jump to content

ستم میں بھی تو پہلو ان کی زینت کہ نکلتے ہیں

From Wikisource
ستم میں بھی تو پہلو ان کی زینت کہ نکلتے ہیں
by راز رامپوری
323723ستم میں بھی تو پہلو ان کی زینت کہ نکلتے ہیںراز رامپوری

ستم میں بھی تو پہلو ان کی زینت کہ نکلتے ہیں
ہمارے خوں شدہ دل کو حسیں تلووں سے ملتے ہیں

شگاف سینہ سوراخ جگر چاک دل عاشق
محبت کی گلی سے سیکڑوں رستے نکلتے ہے

تمہاری مانگ کے عاشق ہیں شیخ و برہمن دونوں
یہ وہ رستہ ہے جس پر دوست دشمن ساتھ چلتے ہیں

کھٹک آج آنسوؤں کی دے رہی ہے یہ خبر مجھ کو
چبھے تھے دل میں جو کانٹے وہ آنکھوں سے نکلتے ہیں

میں اس الفت کے صدقہ ہوں میں اس نفرت کے قرباں ہوں
جگہ ہے رازؔ کی دل میں مگر صورت سے جلتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.