سب کائنات حسن کا حاصل لئے ہوئے
Appearance
سب کائنات حسن کا حاصل لئے ہوئے
بیٹھا ہوں دل میں عشق کی محفل لئے ہوئے
اک اک نظر فریبیٔ ساحل لئے ہوئے
ہر موج سامنے ہے مرا دل لئے ہوئے
سرمایۂ نشاط غم دل لئے ہوئے
ہوں یعنی کیف عشق کا حاصل لئے ہوئے
پھر کشتیٔ حیات ہے گرداب غم کے ساتھ
طوفان بے نیازیٔ ساحل لئے ہوئے
جی چاہتا ہے تھک کے کہیں بیٹھ جائیے
آغوش پائے شوق میں منزل لئے ہوئے
جب لطف ہے کہ میں بھی رہوں اپنے ہوش میں
آؤ مری نگاہ مرا دل لئے ہوئے
وہ مست و محو اپنے فروغ نشاط میں
میں مطمئن ہوں درد بھرا دل لئے ہوئے
اے قیس دید اپنے حجابوں سے ہوشیار
ہر پردۂ نگاہ ہے محمل لئے ہوئے
مجھ پر بھی کچھ کرم نگہ نیشتر نواز
میں بھی ہوں ایک درد بھرا دل لئے ہوئے
باسطؔ کسی جہت سے نہ ہو آشنا مگر
ہلکا سا اک تصور منزل لئے ہوئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |