ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
Jump to navigation
Jump to search
ساقی ہے گرچہ بے شمار شراب
نہیں خوش تر سوائے یار شراب
قتل پر کس کے آج ہوتی ہے
توسن حسن پر سوار شراب
رکھ کرم پر ترے نظر مجرم
نوش کرتے ہیں بے شمار شراب
ان کو آنکھیں دکھا دے ٹک ساقی
چاہتے ہیں جو بار بار شراب
یا علی حشر میں دو چنداؔ کو
آب کوثر کی خوش گوار شراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.
Public domainPublic domainfalsefalse