ساقی ترے بغیر ہے محفل سے دل اچاٹ
ساقی ترے بغیر ہے محفل سے دل اچاٹ
سو جیسے جی اداس ہے سو دل سے دل اچاٹ
سوئے عدم پھرے چلے جاتے ہیں قافلے
سب ہم سفر ہیں زیست ہے منزل سے دل اچاٹ
جس روز سے کہ شوق اسیری ہوا مجھے
صیاد ہے شکار عنادل سے دل اچاٹ
ٹھکرائے بھی نہ آ کے لحد فاتحہ کجا
مر کر ہوا ہوں اس بت قاتل سے دل اچاٹ
جز مرگ کچھ نہیں ہے تپ ہجر کا علاج
ہم نقش چاٹ کر ہوئے عامل سے دل اچاٹ
کانٹوں پہ مثل قیس کہاں تک رواں دواں
لیلاۓ جاں ہے جسم کی محمل سے دل اچاٹ
دوزخ مجھے بہشت کے بدلے قبول ہے
ایسا ہوں ایک حور شمائل سے دل اچاٹ
جھنکار سے میں چار قدم آگے جاؤں گا
زندان میں ہوا جو سلاسل سے دل اچاٹ
مجنوں کی چال لیلیٰ اگر دو قدم چلے
تابوت دل پسند ہو محمل سے دل اچاٹ
قاتل ہمارے دل کو تڑپتا نہ چھوڑ جا
اک دم کے واسطے نہ ہو بسمل سے دل اچاٹ
اے بحرؔ یار ساتھ نہیں جائیے کہاں
گلشن سے جی اداس ہے محفل سے دل اچاٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |