زوال بغداد
آسماں را حق بود گر خوں بیار و بر زمین
بزوال ملک مستعصم امیر المومنین
یہ وہ شعر ہے جو شیخ سعدیؒ نے بغداد کی تباہی پر کہا تھا۔ ہم آج اس تباہی کا ذکر کرتے ہیں جو زوال بغداد کے نام سے مشہور ہے۔ چنگیز خاں کے بہت سے القاب ہیں، جن میں سے خان اعظم، خاقان اعظم اور قہر خدا مشہور عام ہیں مگر اصلی نام اس کا تموچن تھا۔ ۱۱۵۵ء میں پیدا ہوا اور ۱۱۸۹ء میں خاقان اعظم تسلیم کیا گیا اور دشت قپچاک سے لے کر منگولیا تک اس کے زیر نگیں آگیا۔ ان مغلوں کی قوم کا جن کا یہ خاقان تھا، مشہور مؤرخ عبد اللطیف ہے، جس نے حسب ذیل الفاظ میں ذکر کیا ہے،
’’ان کے مرد اور عورت دونوں لڑتے ہیں، تیر ان کا خاص حربہ ہے اور غذا میں جو گوشت بھی مل جائے، کھا جاتے ہیں۔ ان کے قتل عام میں کسی کو اماں نہیں ملتی۔ کیونکہ یہ عورتوں اور معصوم بچوں تک کو نہیں چھوڑتے۔‘‘
اسلامی دنیا سے چنگیز خاں کو کوئی تعلق ہی نہ تھا اور الگ تھلگ تھا، لیکن اس کی سلطنت کی سرحد خوارزم شاہ کی سرحد سے ملتی تھی۔ مسلمانوں کی شامت جو آئی تو خوارزم شاہ کے ایک گورنر نے، کچھ منگولیا سے تاجرآئے تھے، ان کو مروا ڈالا اور ان کا اسباب ضبط کر لیا۔ چنگیز خاں نےکوئی بے قاعدگی نہ کی اور گورنر کو سزا دلوانا چاہی، لیکن اس کے جواب میں خوارزم شاہ نے اس ایلچی کو قتل کرا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ قہر خدا کو جنبش ہوئی اور طوفان کی طرح پہلا حملہ دس لاکھ کی جمعیت سے خوارزم پر ہوا۔ خوارزم شاہ کی فوج اس طوفان کے آگے منٹ بھر بھی نہ ٹھہر سکی۔ شہر اور گاؤں اور قصبہ اور قلعہ کل کے کل فتح کر کے تباہ کر دیے گئے اور ایکوں ایک متنفس قتل کر دیا گیا۔ خجند ایسا خوبصورت اور خوش حال شہر بھی تباہ کر دیا گیا اور مرد، عورت بچے سب قتل کر دیے گئے۔
اس کے بعد بخارا کا نمبر آیا اور اس کا بھی یہی حال ہوا کہ سوائے لاشوں اور خاک کے ڈھیر کے کچھ نہ رہا۔ اس کے بعد قہر خدا مع اپنی فوج بلائے بے درماں کے سمرقند کی طرف بڑھا۔ اسلامی دنیا میں نہیں، بلکہ دنیا میں اس وقت سمرقند ایک یکتا شہر تھا۔ نہ صرف ماوراء لنہر کا دار الخلافہ تھا بلکہ تجارت اور صنعت و حرفت اور خوشحالی میں دنیا کا کوئی شہر اس کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ گویا اس کی وہ حیثیت تھی جو آج لندن یا پیرس یا برلن کی ہو سکتی ہے۔ تین میل کے دور میں سمرقند کا قلعہ تھا اور صرف افواجِ متعینہ کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار تھی۔ جس شہر میں اتنی زبردست فوجی چھاؤنی ہو، اس کی وسعت کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ سمرقند کو چاروں طرف سے چنگیزی فوجوں نے گھیر لیا اور اس اثناء میں ساٹھ ہزار ترکی سپاہیوں نے غداری کی اور چنگیزی فوج سے جا ملے۔ مگر ان کو بھی چنگیزیوں نے نہ معلوم کس مصلحت کی بنا پر قتل کر ڈالا۔
جب کوئی امید نہ رہی تو شہر کے اماموں اور قاضیوں نے صلح کی درخواست کی، لیکن اس پر بھی سارے شہر کو تباہ کر کے، سوائے دستکاروں اور صناعوں کو چھوڑ کر، کہ جن کی تعداد پچاس ہزار کے قریب تھی بوڑھے، بچے، عورتیں، جوان سب کے سب قتل کر دیے گئے، جن کی تعداد ساڑھے نو لاکھ تھی۔ جس شہر کی آبادی دس لاکھ ہو اور اس میں سے ساڑھے نو لاکھ مار ڈالے جائیں اور سارا شہر منہدم کردیا جائے تو وہ قہر خدا نہیں تو اور کیا ہے۔ سمرقند اور بخارا کے بعد اب بلخ کا نمبر آیا اور قہر خدا اس طرف چلا۔ سمرقند کا حال سن کر بلخ والے کانپ رہے تھے اور بجائے لڑنے کے چنگیز خاں کے پاس صلح کے لیے اماں طلب کرنے سفیر بھیجے اور بہت تحفے تحائف نذر کیے۔ چنگیز خاں نے تحفے تحائف قبول کیے اور اماں دی، لیکن کہا کہ مجھ کو شہر بلخ کی مردم شماری کرنا ہے۔ لہٰذا لوگ باہر شہر کے آجائیں۔ چنانچہ اس بہانےسے سب کو باہر بلا کر ایک ایک کو قتل کر ڈالا اور شہر کو جلا کر راکھ کا ڈھیر کر دیا۔
اس کے بعد خیوہ قدیم کا نمبر آیا اور شہر فتح کر کے ہر ذی روح کو قتل کرکے آگ لگا دی اور دریائے امور کے بند توڑ کر شہر کو تہ آب کر دیا اور نام و نشان تک مٹا دیا۔ وہاں سے نیسا پہنچا اور وہاں صرف ستر ہزار مردعورتوں اور بچوں کو زمین پر لٹا کر باندھ دیا اور سب کو تیروں سے فنا کر دیا۔ اس کے بعد نیشا پور (بنو طاہر کا دار الخلافہ تھا) کا نمبر آیا اور خاص نیشاپور اور اس کے گرد و نواح میں مرد عورتیں جواں بچے سب ملا کر ستر لاکھ سینتالیس ہزار نفوس قتل کیے۔ شہر نیشا پور کے ساتھ ایک اور جدت کی گئی کہ مسمار کر کے شہر میں ہل چلوا کر جو بو دیے گئے۔ ظاہر ہے کہ محض رسم کو پورا کیا ورنہ درحقیقت جو کی کاشت مقصود نہ تھی۔ اس کے بعد ہرات کی طرف طوفان بڑھا اور ہرات کا بھی وہی حال ہوا اور شہر کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ خاص ہرات اور اس کے گرد و نواح میں سولہ لاکھ آدمی قتل کر دیے گئے اور ہرات کایہ حال ہوا کہ مغلوں کی واپسی کے بعد شہر کی جامع مسجد میں صرف چالیس آدمیوں کا مجمع ممکن تھا۔
ہرات کے بعد زلے کا نمبر آیا جو گورنری کا صدر مقام تھا۔ اس کے بعد ہمدان اور دنباور کا نمبر آیا اور ان کا بھی وہی حال ہوا۔ وہاں سے چنگیز نے جلال الدین خوارزم کا پیچھا کیا اور دریائے انڈس تک اس کو دوڑا مارا۔ جہاں جہاں سے ہو کر چنگیزی فوجیں گئیں ویرانہ چھوڑ گئیں۔ عراق کی طرف متوجہ ہوا تھا مگر وہاں خلیفہ کی فوجوں کے آگے دال نہ گل سکی تھی۔ غرض تمام وسط ایشیا اور ایران کو تباہ و برباد کرکے ریگستان بنا دیا، تمام مشہور شہر کھنڈر پڑے ہوئے تھے اور تام شاہراہیں سنسان پڑی تھیں۔ چنگیز خاں کا واپسی پر انتقال ہو گیا۔ اس قتل عام میں قریب دو کروڑ کے جانیں ضائع ہوئیں بلکہ بعضوں کا تو اندازہ اس سے کہیں زیادہ ہے، اور گو واقعات کو دیکھتے ہوئے مبالغہ نہیں معلوم ہوتا مگر پھر بھی ہم انہیں اعداد کو کافی خیال کرتے ہیں۔
چنگیزخاں کے قریب سو بیٹے تھے۔ جن میں سے مشہور یہ ہیں، باطو خاں، منگو خاں، قبلائی خاں، چغتائی خاں، ہلاکو خاں وغیرہ۔ قبلائی خاں، فغفور چین ہوا۔ باطو خاں باپ کے تخت پر بیٹھا اور چغتائی خاں اپنی اولاد کی وجہ سے مشہور ہوئے۔
خان اعظم چنگیز خاں کی وفات کے بعد ہلاکو خاں ایران میں متعین تھا۔ خلیفہ بغداد مستعصم کا زمانہ آیا۔ بغداد کے باہر یہ مصیبت برپا تھی اور خاص بغداد میں لوگ وہ کام کر رہے تھے جو آج کل ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ حنفی اور حنبلی مسلمانوں میں لڑائیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ بلوے ہوتے تھے۔ وہ ان کو کافر کہتے تھے اور وہ ان کو، علاوہ اس کے شیعہ سنیوں میں الگ سرپھٹول ہو رہی تھی۔ خلیفہ صاحب نے شیعوں کا محلہ تباہ کرا کر ان کو غلام بنا ڈالا اور اس پر روایت ہے کہ شیعہ وزیر نے ہلاکو خاں کو بلا بھیجا۔
ہلاکو خاں نے خلیفہ کو خط لکھا کہ جب ہم رودبار کی مہم پر گئے تھے تو ہم نے تجھ سے امداد مانگی تھی لیکن تو نے ایک آدمی تک نہ دیا۔ اب تجھ کو چاہیے کہ اپنا رویہ بدل ڈال۔ ورنہ تیری سلطنت اور خزانہ سب جاتا رہے گا۔ خلیفہ کا بھی خون ہاشمی جوش میں آگیا اور بغیر فوج یا کسی سہارے کے جواب سخت دیا اور قاصدوں کی توہین کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد کا لاتعداد فوج سے محاصرہ کر لیا گیا۔ چاروں طرف بلندیوں پر سے پتھر اور مشتعل رال کے گولے شہر والوں پر برسنے لگے اور چالیس روز کے سخت محاصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہلاکو خاں سے صلح کی جائے۔ ہلاکو خاں نے دھوکہ دے کر خلیفہ کے خاص افسران کو اپنے کیمپ میں بلایا اور ذرا سے بہانے پر سب کو قتل کر ڈالا۔ آخر کو یہ طے ہوا کہ شہر کو بچانے کے لیے صلح کی جائے۔ چنانچہ خود خلیفہ مع اپنے بھائی اور دونوں بیٹوں اور قریب تین ہزار آدمیوں کے ہلاکو خاں کے خیمے میں گئے۔
یہ تین ہزار آدمی شہر کے بڑے بڑے قاضی، شیخ، امام اور دوسرے بڑے لوگ تھے۔ ہلاکو خاں نے سب کا بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ خلیفہ اور تینوں شہزادوں کو شرف باریابی بھی بخشا۔ جب خلیفہ کو ہر طرح کا اطمینان دلا دیا تو ہلاکو خاں نے خلیفہ سے کہا کہ مجھ کو بغداد شہر خاص کی ذرا مردم شماری کرنا ہے لہٰذا حکم بھیج دیجیے کہ تمام مسلح آدمی اور باشندے شہر سے باہر آ جائیں۔ چنانچہ جب سب آگئے تو گرفتار کر لیے گئے اور دوسرے روز ہلاکو خاں نے سب کو قتل کر کے خاص بغداد شہر کی تباہی کا حکم دے دیا۔
شاہی محل کے ایک ہال میں ایک سونےکا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سنہری پرندے بنے ہوئے تھے اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہال میں جس کا نام ایوانِ فردوسی تھا، نہایت عالیشان جھاڑو فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور چھتوں پر لعل و گوہر کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ان کا نہایت خوشنما رنگ اس کی زیبائش میں اور بھی چار چاند لگا رہا تھا۔ غرض یہ کہ ایوان فردوسی کیا تھا ایک قابل دید نظارہ۔
دریا کے ہر دو کناروں پر میلوں تک آمنے سامنے محل بنے ہوئے تھے اور علاوہ محلات کے باغات بھی تھے۔ دریا کے کنارے کنارے پانی کی سطح تک سنگ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دریا میں ہزار کشتیاں پڑی ہوئی تھیں جو ذواک کہلاتی تھیں۔ جن پر خوب صورت جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں جو شعاعوں کی طرح سطح آب پر لہرا لہرا کر ایک عجیب نظارہ پیدا کر رہی تھیں، جنہوں نے گویا اس سین میں جان ڈال دی تھی۔ اعلیٰ طبقے کے بغدادی انہیں کشتیوں میں بیٹھ کر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے میں بغرض سیر و تفریح جاتے تھے۔ بہت سے گھاٹ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے اور ان پر تمام بیڑا لنگر ڈالے رہتا تھا، جس میں بڑی چھوٹی اور جنگی کشتیاں و جہاز ہر قسم کے تھے۔ اس میں اونچے اونچےبلند جنگی جہاز اور ان کے آس پاس پولیس کی کشتیاں تھیں۔
جامع مسجد نہایت ہی خوبصورت اور عالیشان عمارت تھی۔ ایوان جو کہ قصر الخلد کہلاتا تھا، اس کے بیچ میں ایک بڑا زبردست ہرے رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا۔ جو قریب اسی ہاتھ (۱۱۲فٹ) اونچا تھا۔ گنبد کی چوٹی پر ایک گھوڑے سوار کا پتلا بنا ہوا تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا۔ غرض بغداد کیا تھا کہ شہروں میں دلہن اور کیوں نہ ہو کہ اس قدر زبردست سلطنت کا دارالخلافہ برسوں رہا، جہاں دنیا کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ غرض یہ تھا وہ جس کی تباہی کا حکم دیا گیا۔
بغداد کی تباہی کے حالات کا حال قلم بند کرنے کے لیے کسی استاد کے قلم کی ضرورت ہے، مثلاً گبن۔ عورتیں اور بچے جو اپنے گھروں سے باہر کلام پاک ہاتھ میں لیے ہوئے منت سماجت کرتے ہوئے نکلے، وہیں کے وہیں کچل دیے گئے۔ نازک عورتیں جن کی تربیت و پرورش نہایت نزاکت سے ہوئی اور جنہوں نے کبھی گھر سے باہر نکلنے کی اور اس طرح مجمع میں آنے کی ہمت بھی نہ کی ہوگی، وہ گلیوں اور سڑکوں پر کھینچ کھینچ کر لائی گئیں اور ان پر سخت جبر و تشدد ہوا اور قتل کردی گئیں۔ صنعتی اور علمی خزانے جو کہ بڑی محنت اور جانفشانی اور بڑی مدت سے بادشاہوں نے اکٹھے کیے تھے، تلف کر دیے گئے اور عرب و عجم کی جو کچھ بھی بچی کھچی تہذیب تھی وہ سب چند گھنٹوں میں تہس نہس کردی گئی۔
تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلات، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفاخانوں میں مریض، کالجوں میں طالب علم اور استاد تہ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کردی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔
چار روز تک مسلسل قتل عام جاری رہا۔ اس کے بعد خلیفہ مستعصم کو بھی مع اس کے لڑکوں اور خاندان والوں کے قتل کردیا گیا۔ کچھ افراد خاندانِ عباسیہ کے البتہ اس غارت گری سے بچ گئے۔ بغداد جو علم اور تہذیب کا مرکز تھا، تہ و بالا کر دیا گیا۔ بغداد کی آبادی بیس لاکھ تھی۔ جس میں سے قریب سولہ لاکھ قتل کر دی گئی۔ عرب اور ایران کے مصنفوں نے نہایت ہی عبرتناک طریقے پر اس لوٹ اور غارت گری کا حال قلم بند کیا ہے جس میں ہزارہا جنگلی بت پرستوں نے اسلامی دنیا کو تباہ کر دیا اور یہ واقعہ تیرہویں صدی کے درمیانی حصہ میں ہوا۔ اس کے حالات پڑھ کر کیسے سے کیسا سخت دل آدمی بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ منگولیا کے باشندوں نے کیسے مظالم کیے اور کس طرح سے انسانوں کو چن چن کر قتل کر دیا اور ہر قسم کے علوم کے خزانے برباد کر دیے۔
ابن الاثیر لکھتا ہے کہ تاتاریوں کا حملہ ایک ایسا سنسنی خیز و زبردست حادثہ تھا جس کااثر تمام دنیا پر پڑا اور خاص طور پر مسلمانوں پر کہ جو اپنی نظیر آپ ہے۔ اس کے علاوہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس وقت سے اب تک ایسے جانکاہ حادثے کی کوئی مثال پیش نظر نہیں ہے۔ علامہ جوینی ’’جہاں کشا‘‘ کا مصنف، جو کہ اس وقت ہلاکو کے یہاں ملازم تھا، لکھتا ہے کہ اس انقلاب نے دنیا کو مغلوب کر دیا۔ علم اور عالموں کو تباہ کر دیا اور خاص طور پر خراسان میں جو کہ علم اور ادب کا مرکز تھا، عالموں کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور یہ زمانہ علم و سائنس کے قحط کا زمانہ ہے۔
بغداد کی تباہی کے بعد اس جنگلی گروہ نے دریائے فرات کو عبور کیا اور عراق پہنچے اور جہاں جہاں یہ لوگ گئے وہاں انہوں نے اسی طرح کشت و خون جاری رکھا۔ ایڈیسا، حیرن اور دوسرے اہم شہروں کے باشندوں کے خون میں بھی اپنی تلوار رنگی۔ حلب میں پچاس ہزار آدمی قتل کیے گئے اور دس ہزار عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر فروخت کر دیا گیا۔ حیرن والوں نے شہر حوالے کردیا اس شرط پر کہ شہر کو تباہ نہ کیا جائے لیکن باشندوں کو تباہ کردیا۔ حتیٰ کہ دودھ پیتے بچوں کو قتل کر دیا گیا، قصہ مختصر سارا ملک مع بغداد تباہ کر دیا گیا۔
اس خوفناک تباہی پر اسلام کے تین مشہور شاعروں کے تین اشعار قابل غور ہیں۔ سعدیؒ کا شعر مضمون کی سرخی کے ساتھ پیش ہے۔ جس میں گویا سعدی نے خون کے آنسو بہائے ہیں۔ حالی نے گویا جل کر کہا ہے،
اڑا لے گئی باد پندار جس کو
بہا لے گئی سیلِ تاتار جس کو
جیسے کوئی ماں اپنے بچوں کے چوٹ لگنے پر جل کر کہتی ہے۔ ’’چلو اچھا ہوا، خوب ہوا۔‘‘ اقبال نے اس سانحۂ عظیم کا نوٹس تک لینے سے انکار کیا ہے اور لیا بھی ہے تو کس استغنا سے۔ فرماتے ہیں،
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانوں سے
باسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانوں سے
اقبال در اصل بہت بلند اڑتا ہے۔ اس کے نزدیک بغداد یا دلی کی تباہی کوئی حیثیت ہی نہیں رکتھی جب کہ اصل شے کعبہ ہے چنانچہ کیا غضب ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ نئے چوکیدار نے پرانے چوکیدار کو مار ڈالا! اقبال کے نزدیک محض چوکیدار بدل گیا اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اسلام اور اس کا کعبہ ایسے ہزار بغداد تباہ ہوں تب بھی جوں کا تو ہے اور رہے گا۔
ہلاکو خاں کا قول تھا کہ خدا نے مجھے مسلمانوں کے مارنے کے لیے پیدا کیا ہے اور نعوذ باللہ، کہتا تھا کہ کعبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا اور یہ کہہ کر سچ مچ چلا وہ حجاز کی طرف۔ دیکھا جائے تو اسلام کی قوت کیا بلکہ سیاہی وجود ہی مٹ چکا تھا۔ اسلامی دنیا اس سرے سے اس سرے تک مع آبادی فنا کر ڈالی گئی تھی، کس میں بوتا تھا جو اس گروہ کو روکتا۔ لیکن سلطان مصری نے اپنے کو مع اپنی مختصر جمعیت کے مغلوں اور کعبے کے درمیان ڈال دیا۔ مقام عین الجلوۃ پر گھمسان کا معرکہ ہوا جس میں ’’خدام کعبہ‘‘ کو فتح اور مغلوں کو شکست ہوئی، نہ صرف شکست بلکہ ایسی شکست کہ پھر عراق تک میں مصریوں نے مغلوں کو نہ چھوڑا اور سارے ملک سے نکال دیا، ہر جگہ شکست دی۔ مگر بغداد تباہ ہو چکا تھا اور اس خوفناک زوال کے بعد پھر کبھی بغداد کو اور اسلامی فکر و فن و صنعت کو عروج حاصل نہیں ہوا۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |