زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے
زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے
آنکھ پردوں میں چھپا رکھتی ہے
ساتھ فہمیدگی گر ہووے تو پھر
بت پرستی بھی مزا رکھتی ہے
چہچہا رنگ مرے خون کا سا
ترے پانو کی حنا رکھتی ہے
آرسی ہوتی ہے سنمکھ تیرے
کچھ بھی آنکھوں میں حیا رکھتی ہے
کر دیا اس نے تو مجھ کو مدہوش
کس کی بو باد صبا رکھتی ہے
خاک دہلی کی ذرا سیر تو کر
کہ عجب آب و ہوا رکھتی ہے
ہائے تیکھی نگہ اس کافر کی
کیا کہوں میں جو ادا رکھتی ہے
تیری تصویر کو لے کر شیریں
اپنی چھاتی سے لگا رکھتی ہے
جب تلک آوے ہے تو پھر کے یہ چال
خاک میں مجھ کو ملا رکھتی ہے
آرسی سے نہ کرو کج نظری
اس کا تم سے وہ گلا رکھتی ہے
آہ میری ہے اثر سے ہم دوش
طالع زلف رسا رکھتی ہے
کیا ہے تقصیر جو ہم کو تجھ سے
گردش چرخ جدا رکھتی ہے
جھک پڑے ہے تیری پا بوسی کا
زلف بھی شوق بلا رکھتی ہے
گوشت اور پوست بھی گل جاتا ہے
جسم کے بیچ یہ کیا رکھتی ہے
مصحفیؔ نام ہے جس چیز کا چاہ
آدمی کو تو کھپا رکھتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |