زلف اندھیر کرنے والی ہے
زلف اندھیر کرنے والی ہے
تم نے ناگن بلا کی پالی ہے
قلمیں رخسار یار پر دیکھو
سرخ ہے پھول سبز ڈالی ہے
غیر پر لطف ہے ستم ہم پر
ان کی جو بات ہے نرالی ہے
واہ کیا منہ سے پھول جھڑتے ہیں
کتنی پیاری تمہاری گالی ہے
مرغ دل بھی ہے ساتھ چڑیا کے
جال انگیا کی ان کی جالی ہے
شب فرقت کو دیکھ بخت سیاہ
کوئی بھی رات اتنی کالی ہے
کیوں قیامت کی چال چلتی ہو
اس میں عاشق کی پائمالی ہے
دہن یار کا پتا نہ لگا
بات کہنے کو اک بنا لی ہے
ناف معشوق صاف موتی کی
ننھی منی سی اک پیالی ہے
کیوں کر ان کو دوں مہر و مہ سے مثال
جن کو دعویٰ بے مثالی ہے
رنگ لائی گلوریاں کہہ کر
لال ہونٹھوں پہ اور لالی ہے
دل تصور میں محو رہتا ہے
عاشق شاہد خیالی ہے
کیوں ہنسائے نہ مجھ سے رند کو بنگ
دخت رز کی بہن ہے سالی ہے
دم غنیمت ہے اس مسیحا کا
اب طبیبوں سے شہر خالی ہے
خاک اڑائی ہے ان کے کوچہ کی
ہم نے سر پر زمیں اٹھا لی ہے
دل مرا لے کے عرش پر ہے دماغ
اور ہی اب مزاج عالی ہے
کیوں بتوں کی ہمیں محبت دی
کیا مصیبت خدا نے ڈالی ہے
واں کبھی غیر سے کبھی ہم ہیں
روز موقوفی اور بحالی ہے
دے کے اک بوسۂ لب جاں بخش
تن بے جاں میں جان ڈالی ہے
کیا بلا گوری گوری رنگت پر
زلف کالی ہے آنکھ کالی ہے
حال میں شاعری کا ہے یہ ڈھنگ
اپنا جو شعر ہے وہ حالی ہے
دیکھو مجھ پر بہت ستم نہ کرو
پاس اے جان کوتوالی ہے
ہم سے انکار وصل کا ہے عبث
ہوگی جو بات ہونے والی ہے
ان کے کوچہ میں خاک ہو جائیں
ہم نے اک راہ یہ نکالی ہے
یار پہلو میں ہے نہ جام شراب
یہ بھی خالی ہے وہ بھی خالی ہے
ہے ستم یہ انیلے پن کا بناؤ
کان میں ایک ایک بالی ہے
اس کے مذہب کا اعتبار ہے کیا
مہرؔ اک رند لاابالی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |