زبان حال سے ہم شکوۂ بیداد کرتے ہیں
Appearance
زبان حال سے ہم شکوۂ بیداد کرتے ہیں
دہان زخم قاتل دم بدم فریاد کرتے ہیں
سمجھ کر کیا اسیران قفس فریاد کرتے ہیں
توجہ بھی کہیں فریاد پر صیاد کرتے ہیں
عذاب قبر سے پاتے ہیں راحت عشق کے مجرم
پس مرداں جفائیں یار کی جب یاد کرتے ہیں
نہ کہہ بہر خدا تو بندگان عشق کو کافر
بتوں کی یاد میں زاہد خدا کو یاد کرتے ہیں
ذرا صیاد چل کر دیکھ تو کیا حال ہے ان کا
اسیران قفس فریاد پر فریاد کرتے ہیں
بتان سنگ دل کے ہاتھ سے دل ہی نہیں نالاں
برابر دیر میں ناقوس بھی فریاد کرتے ہیں
بناتے ہیں ہزاروں زخم خنداں خنجر غم سے
دل ناشاد کو ہم اس طرح پر شاد کرتے ہیں
ملے لذت جو ایذا سے تو باز آتے ہیں ایذا سے
ستم ایجاد ہیں طرز ستم ایجاد کرتے ہیں
اثرؔ کو دیکھ کر کیا روح کو صدمہ پہنچتا ہے
خدا سمجھے بتوں سے کس قدر بیداد کرتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |