رہے نہ ایک بھی بیداد گر ستم باقی
Appearance
رہے نہ ایک بھی بیداد گر ستم باقی
رکے نہ ہاتھ ابھی تک ہے دم میں دم باقی
اٹھا دوئی کا جو پردا ہماری آنکھوں سے
تو کعبے میں بھی رہا بس وہی صنم باقی
بلا لو بالیں پہ حسرت نہ دل میں میرے رہے
ابھی تلک تو ہے تن میں ہمارے دم باقی
لحد پہ آئیں گے اور پھول بھی اٹھائیں گے
یہ رنج ہے کہ نہ اس وقت ہوں گے ہم باقی
یہ چار دن کے تماشے ہیں آہ دنیا کے
رہا جہاں میں سکندر نہ اور نہ جم باقی
تم آؤ تار سے مرقد پہ ہم قدم چومیں
فقط یہی ہے تمنا تری قسم باقی
رساؔ یہ رنج اٹھایا فراق میں تیرے
رہے جہاں میں نہ آخر کو آہ ہم باقی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |