رکھے ہے رنگ کچھ ساقی شراب ناب آتش کا
Appearance
رکھے ہے رنگ کچھ ساقی شراب ناب آتش کا
مقطر کیا کیا لے کر گل شاداب آتش کا
مرے یہ گرم آنسو پونچھ مت دست نگاریں سے
کہ ان آنکھوں سے رہتا ہے رواں سیلاب آتش کا
تہ مژگاں نہاں رکھتے ہیں ہم لخت دل سوزاں
یہاں خاشاک میں رکھا ہے اخگر داب آتش کا
نگاہ گرم سے اس کی دل بیتاب روکش ہے
حریف آخر ہوا یہ پارۂ سیماب آتش کا
جو سیل اشک و آہ گرم کو ٹک دیجیے رخصت
نشاں دریا کا گم ہو نام ہو نایاب آتش کا
شکیب و تاب و ہوش و صبر سوز غم سے سب سلگا
ہوا طعمہ غرض اپنا تمام اسباب آتش کا
عرق اس شعلہ گوں عارض پہ کیا صنع الٰہی ہے
نہیں دیکھا ہے ہم نے ربط باہم آب آتش کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |