رکھو وہ شیوہ نہ مد نظر نظر میں رہے
رکھو وہ شیوہ نہ مد نظر نظر میں رہے
کہ جس سے راز محبت بشر بشر میں رہے
چمن جو بن کے ترا رہ گزر گزر میں رہے
تو نخل طور کا جلوہ شجر شجر میں رہے
عزیز تر ہے اگر ہو سرشک میں تاثیر
لطیف تر ہے جو آب گہر گہر میں رہے
ادھر تمام کیا آسماں نے اپنا کام
ادھر پھنسے ہوئے اہل ہنر ہنر میں رہے
وفور غم سے یہ جی میں ہے روئیے اس طرح
نہ دل میں حال نہ خون جگر جگر میں رہے
بری خبر ہو تو اس طرح نامہ بر کہنا
کہ صدق و کذب کا شک بے خبر خبر میں رہے
سمجھ کے عشق کر اے دل کہ کیا نہیں معلوم
جو سوچتے نہیں نفع و ضرر ضرر میں رہے
اٹھاؤ قبر میں بھی لذت خلش تا حشر
خدا کرے کہ خدنگ جگر جگر میں رہے
وفا ہماری ستم آپ کے کچھ ایسے ہوں
کہ مدتوں یہی چرچا بشر بشر میں رہے
شب فراق ملی تیرہ روزگاری میں
سحر گزر گئی اور ہم سحر میں رہے
ہم ان کی بزم میں بیٹھے رہے ولیکن یوں
کہ جیسے رہرو راہ خطر خطر میں رہے
کھچے جو سینے سے نالہ تو چاہیے اے دل
مثال معنی لفظ اثر اثر میں رہے
شب وصال کی یا رب نہ روشنی کم ہو
وہ نور عارض رشک قمر قمر میں رہے
تمیز غم کو دیا تھا فلک نے عیش اتنا
کہ جیسے جلوۂ رنگ شرر شرر میں رہے
ہمارے قتل کو لو نازکی سے پہلے صلاح
ابھی تو خنجر زیب کمر کمر میں رہے
ادائے شرم میں لاکھوں اشارے ہیں سالکؔ
جھکی ہوئی یہ کسی کی نظر نظر میں رہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |