رکھا پا جہاں میں نگارا زمیں پر
Appearance
رکھا پا جہاں میں نگارا زمیں پر
بہت سر کو واں ہم نے مارا زمیں پر
جنوں جوش مارے ہے دیوار و در سے
ہوا کس پری کا گزارا زمیں پر
نہیں ہے یہ آہ فلک سا کہ ہم نے
علم شور سودا کا گاڑھا زمیں پر
قدم جس جگہ رکھا اس سنگ دل نے
نہ ہو واں بجز سنگ خارا زمیں پر
نظر سے تری جس نے ہم کو گرایا
فلک سے اٹھا کر کے مارا زمیں پر
تو روئے زمیں دیکھ لے سیر ہو کر
نہ ہوگا گزر پھر دوبارا زمیں پر
ترے نقش پا کو کہے اپنا ہم سر
نہیں ہے یہ منہ تو ہمارا زمیں پر
وہ زہرہ جبیں مہرباں ہووے حسرتؔ
کہاں ہے یہ اپنا ستارا زمیں پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |