روش حسن مراعات چلی جاتی ہے
Appearance
روش حسن مراعات چلی جاتی ہے
ہم سے اور ان سے وہی بات چلی جاتی ہے
اس جفا جو سے بایمائے تمنا اب تک
ہوس لطف و عنایات چلی جاتی ہے
مل ہی جاتے ہیں پشیمانئ غم کے اسباب
شوق حرماں کی مدارات چلی جاتی ہے
ہم سے ہر چند وہ ظاہر میں خفا ہیں لیکن
کوشش پرسش حالات چلی جاتی ہے
دن کو ہم ان سے بگڑتے ہیں وہ شب کو ہم سے
رسم پابندئ اوقات چلی جاتی ہے
اس ستم گر کو ستم گر نہیں کہتے بنتا
سعئ تاویل خیالات چلی جاتی ہے
نگہ یار سے پا لیتے ہیں دل کی باتیں
شہرت کشف و کرامات چلی جاتی ہے
حیرت حسن نے مجبور کیا ہے حسرتؔ
وصل جاناں کی یوں ہی رات چلی جاتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |