روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا
Appearance
روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا
دشت غربت میں مسافر کو وطن یاد آیا
چٹکیاں دل میں مرے لینے لگا ناخن عشق
گلبدن دیکھ کے اس گل کا بدن یاد آیا
وہم ہی وہم میں اپنی ہوئی اوقات بسر
کمر یار کو بھولے تو دہن یاد آیا
برگ گل دیکھ کے آنکھوں میں ترے پھر گئے لب
غنچہ چٹکا تو مجھے لطف سخن یاد آیا
در بدر پھر کے دلا گھر کی ہمیں قدر ہوئی
راہ غربت میں جو بھولے تو وطن یاد آیا
آہ کیوں کھینچ کے آنکھوں میں بھر آئے آنسو
کیا قفس میں تجھے اے مرغ چمن یاد آیا
پھر امانتؔ مرا دل بھول گیا عیش و طرب
پھر مجھے روضۂ سلطان زمن یاد آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |