رنگ صحبت بدلتے جاتے ہیں
Appearance
رنگ صحبت بدلتے جاتے ہیں
ساتھ کے یار چلتے جاتے ہیں
جن کی کرتے ہو تم مسیحائی
وہ مریض اب سنبھلتے جاتے ہیں
دل میں ہونے لگا حضور کا گھر
آپ سانچے میں ڈھلتے جاتے ہیں
زلف الجھتے ہے ان کے بالوں سے
سانپ کا سر کچلتے جاتے ہیں
شائق قتل کوئے قاتل میں
کودتے اور اچھلتے جاتے ہیں
دیکھتے ہیں وہ اپنا جوبن آپ
اب تو کچھ کچھ سنبھلتے جاتے ہیں
ہم تو روتے ادھر سے آتے ہیں
آپ ادھر سے مچلتے جاتے ہیں
مہرؔ سوئے تھے کس کے ساتھ کہ صبح
ٹھنڈے ٹھنڈے بھی جلتے جاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |