رنگ دیکھا تری طبیعت کا
Appearance
رنگ دیکھا تری طبیعت کا
ہو چکا امتحاں محبت کا
یہی نقشہ رہا جو فرقت کا
بت بنا لیں گے تیری صورت کا
نہ ملو تم گلے رقیبوں سے
خون ہوتا ہے میری حسرت کا
تیری رفتار نے نشان دیا
نام سنتے تھے ہم قیامت کا
دیکھتا ہوں پری جمالوں کو
مجھ کو لپکا ہے اچھی صورت کا
ملتی جلتی ہے زلف شب گوں سے
کیا مقدر ہے شام فرقت کا
تیری ٹھوکر کے آگے او ظالم
پاؤں جمتا نہیں قیامت کا
وہ مرے حال پر ترے الطاف
وہ زمانہ تری محبت کا
سن کے دشمن کی بات پی جاؤں
مقتضا یہ نہیں ہے غیرت کا
وہ بگڑتے ہیں مجھ سے بن بن کر
رنگ رخ رنگ ہے طبیعت کا
جانتے ہیں فروغؔ کو ہم بھی
اک یہی شخص ہے مروت کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |