Jump to content

رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا

From Wikisource
رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
by ظہیر دہلوی
299892رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیاظہیر دہلوی

رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا
کوئی پہلو مرے مطلب کا نکلنے نہ دیا

کچھ سہارا بھی ہمیں روز ازل نے نہ دیا
دل بدلنے نہ دیا بخت بدلنے نہ دیا

کوئی ارماں ترے جلووں نے نکلنے نہ دیا
ہوش آنے نہ دیا غش سے سنبھلنے نہ دیا

چاہتے تھے کہ پیامی کو پتا دیں تیرا
رشک نے نام ترا منہ سے نکلنے نہ دیا

شمع رو میں نے کہا تھا مری ضد سے اس نے
شمع کو بزم میں اپنے کبھی جلنے نہ دیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.