Jump to content

رنج و غم و فراق میں جو مبتلا نہیں

From Wikisource
رنج و غم و فراق میں جو مبتلا نہیں (1934)
by عزیز الرحمٰن عزیز پانی پتی
324642رنج و غم و فراق میں جو مبتلا نہیں1934عزیز الرحمٰن عزیز پانی پتی

رنج و غم و فراق میں جو مبتلا نہیں
دنیا میں اس کی زیست کا کچھ بھی مزا نہیں

لے لو قسم کہ ہم نے تمہارے سوا صنم
اس نقد دل کو اور کسی کو دیا نہیں

اے دل بتوں کے عشق نے برباد کر دیا
ورنہ جہاں میں ہم سا کوئی با وفا نہیں

بالکل درست یہ کہ بتوں میں وفا کہاں
ان سے تو دل لگانے کا کچھ بھی مزا نہیں

پائی سزا خراب ہوئے عشق کیوں کیا
یہ سب خطا ہے دل کی ہماری خطا نہیں

دم لاکھ اس کے عشق کا بھرتے رہے مگر
پھر بھی کسی کا وہ کبھی دل آشنا نہیں

انصاف میرا اور ترا ہوگا ایک دن
وہ کون سا ستم ہے جو مجھ پر کیا نہیں

معشوق پر جفا سے میں ناچار ہو گیا
اس غم سے چھوٹتا مگر آتی قضا نہیں

آہ و فغاں سے فائدہ کچھ بھی نہیں عزیزؔ
یہ بت ہیں سنگ دل انہیں خوف خدا نہیں


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).