رخ روشن دکھائیے صاحب
Appearance
رخ روشن دکھائیے صاحب
شمع کو کچھ جلائیے صاحب
روح ہو کر سمائیے صاحب
میرے قالب میں آئیے صاحب
شیخ جی ہو تمہیں سرود حرام
آپ اپنی نہ گائیے صاحب
وصل کی شب قریب آئی ہے
اب نہ مہندی لگائیے صاحب
خون عشاق ہے معانی میں
شوق سے پان کھائیے صاحب
میں تجلی طور دیکھوں گا
آج کوٹھے پہ آئیے صاحب
آپ دل میں بگاڑ رکھتے ہیں
بس نہ باتیں بنائیے صاحب
چشم تر رونے پر ہے آمادہ
اور سوکھی سنائیے صاحب
بوسۂ رخ تو چاہتے ہو سخیؔ
کہیں منہ کی نہ کھائیے صاحب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |