رات کے رہنے کا نہ ڈر کیجیے
Appearance
رات کے رہنے کا نہ ڈر کیجیے
ایک تو شب یاں بھی سحر کیجیے
لوگ کہیں گے تمہیں ہرجائی ہے
دل میں اک عالم کے نہ گھر کیجیے
دیکھتے ہو میری طرف کیا میاں
اپنی بھی صورت پہ نظر کیجیے
آ ہی لیا بے خبری نے ہمیں
کون ہے یاں کس کو خبر کیجیے
غیر کو جا دیتے ہو گھر میں اگر
میرے تئیں شہر بدر کیجیے
دیکھ نگاہیں تری کہتی ہے خلق
ایسی نگاہوں سے حذر کیجیے
پھر نہیں ملنا ترا مشکل میاں
جاں کا گر اپنی ضرر کیجیے
منزل ہستی میں بہت ہم رہے
مصحفیؔ اب یاں سے سفر کیجیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |