ذوق نمو کو منزل دوست میں آ کے بھول جا
ذوق نمو کو منزل دوست میں آ کے بھول جا
اس طرح بے نیاز ہو سر کو جھکا کے بھول جا
داغ فراق کے سوا حاصل عشق کچھ نہیں
پردۂ جان و دل میں یہ شمع جلا کے بھول جا
اس کے حریم ناز تک کوئی پہنچ سکا کہاں
راہ گزار شوق کی خاک اڑا کے بھول جا
حلقہ بگوش عشق ہو پھر نہ زوال ہے نہ موت
پیک قضا پہ آخری تیر چلا کے بھول جا
بزم میں اے نگاہ دوست اس طرح اہل دل سے کھیل
اس کو مٹا کے بھول جا اس کو بنا کے بھول جا
آئے خزاں میں جو کبھی یاد تجھے بہار کی
ساغر چشم تر سے دو اشک بہا کے بھول جا
دل بھی خراب عشق ہے دل کو بھی دے سزائے شوق
اس کو بھی طور کی طرح آگ لگا کے بھول جا
حسرت دید میں جو ہے دید میں وہ مزہ نہیں
پردۂ روئے دوست اٹھا اور اٹھا کے بھول جا
تو بھی دیار دوست میں شوق کے زمزمے الاپ
باد شمال کی طرح ٹھوکریں کھا کے بھول جا
سطوت قیصرانہ کو شوکت خسروانہ کو
جام شراب عشق سے ہونٹ ملا کے بھول جا
میری غزل میں ہے ظفرؔ لطف بقدر ظرف ذوق
تو اسے گا کے جھوم اٹھ یا اسے گا کے بھول جا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |