ذرا دیکھنا خاکساری ہماری
Appearance
ذرا دیکھنا خاکساری ہماری
ملی خاک میں خاک ساری ہماری
اسے حشر میں اے خضر دیکھ لیں گے
اگر زندگی ہے تمہاری ہماری
یہ کہتے ہیں مژگان تر کو دکھا کر
بجھی زہر میں ہے کٹاری ہماری
وبال جہاں ہیں یہ عالم کے اوپر
مرے پر بھی ہے لاش بھاری ہماری
ہمیں تم ہو روح رواں سے زیادہ
تمہیں کچھ نہیں جان پیاری ہماری
بہم رہ سکیں کس طرح آگ پانی
نبھے دوستی کیا تمہاری ہماری
مرے پر بھی اے شادؔ تقدیر بگڑی
کسی نے نہ عقبیٰ سنواری ہماری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |