دیکھ کر خوش رنگ اس گل پیرہن کے ہاتھ پاؤں
دیکھ کر خوش رنگ اس گل پیرہن کے ہاتھ پاؤں
پھول جاتے ہیں جوانان چمن کے ہاتھ پاؤں
جب نہ دیکھے چار دن اس گل بدن کے ہاتھ پاؤں
سوکھ کر کانٹا ہوئے اہل چمن کے ہاتھ پاؤں
ہم وہ میکش ہیں جو ہوتا ہے ہمیں رنج خمار
ٹوٹتے ہیں ساقی پیماں شکن کے ہاتھ پاؤں
ان کے مقتولوں کی قبریں اس قدر کھودی گئیں
تھک کے تختہ ہو گئے ہر گورکن کے ہاتھ پاؤں
آتی جاتی چوٹ بھی سچ ہی نظر آتی نہیں
آج کل چلتے ہیں کیا اس تیغ زن کے ہاتھ پاؤں
خاکساری کا مزا ہوتا جو اے خسرو تجھے
آب شیریں سے دھلاتا کوہ کن کے ہاتھ پاؤں
ہتھکڑی بیڑی بڑی زوروں سے پہنائی مجھے
اے جنوں شل ہو گئے اہل وطن کے ہاتھ پاؤں
کاٹ ڈالا دست شاخ گل کو پائے سرو کو
باغباں نے دیکھ کر اس گل بدن کے ہاتھ پاؤں
توسن مشکیں سے جب اس ترک کی تشبیہ دی
جوڑ میں ٹھہرے نہ آہوۓ ختن کے ہاتھ پاؤں
اپنے گیسوئے رسا سے یار رسی کی طرح
باندھتا ہے عاشق چاہ ذقن کے ہاتھ پاؤں
نوجوانان چمن اس گل سے تھراتے ہیں یوں
جس طرح کانپیں کسی پیر کہن کے ہاتھ پاؤں
شب کو گرم رقص ہوتا ہے جو وہ آتش مزاج
شمع ساں جلتے ہیں سارے انجمن کے ہاتھ پاؤں
ہتھکڑی بیڑی جو مجھ مجنوں کی اتری بعد مرگ
قبر میں ٹکڑے اڑائیں گے کفن کے ہاتھ پاؤں
ہو گئی خم ٹھونک کر دیو خزاں کے سامنے
کیا کسیلے ہیں جوانان چمن کے ہاتھ پاؤں
شاہد مقصد تمہیں بے واسطہ مل جائے گا
اے صباؔ چومو نہ شیخ و برہمن کے ہاتھ پاؤں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |