دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسیٰ
دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسیٰ
ان آنکھوں کے صدقے جاؤں جو ہیں ہر دم محو تماشا
زہد و ورع پر بھول نہ زاہد حسن کا منکر ہو نہ دوانے
صنعاں سے کو لے گیا غافل ایک ادا میں عشوۂ ترسا
دیکھ تجلی حسن کی تیرے کوہ بہے جب ہو کر پانی
دیوانا سا بھاگا ووہیں چاک گریباں کر کے دریا
کیوں نہ گریباں پھاڑوں اپنا ہاتھ اور میرا اس کا دامن
طالع ہیں آ کر کے ہوا ہے دامن یوسف دست زلیخا
روز کے وعدے روز بہانے روز یہ کہنا آؤں گا کل
فائدہ کیا ان باتوں کا ہے ہم نے میاں بس تم کو دیکھا
زلف معنبر اس نے جو کھولی تو یوں محفل ساری مہکی
آوے چمن سے موسم گل میں باد صبا کا جیسے جھونکا
مدھ میں بھرا ہے جوبن کے وہ حسن سے اس کے ٹپکے ہے مستی
چاہ ذقن ہے جام بلوریں اور غبغب ہے شیشۂ صہبا
نیم نگہ پر دیتے ہیں دل کو جانو تو کچھ لے لو صاحب
پھر نہ ملے گا ورنہ تم کو ہرگز ایسا سستا سودا
کیوں نہ چھکے دل دیکھ کے اس کو جس ساقی کا ہووے یارو
دست نگاریں پنجۂ مرجاں ساعد سیمیں گردن مینا
مصحفیؔ کر کے چاک گریباں چل جنگل کو اے دیوانے
دیکھ تو کیا پھولا ہے لالہ سرخ ہے کیسا دامن صحرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |